یہ کس نے کہہ دیا ناکامیوں کا غم نہیں ہوتا
یہ کس نے کہہ دیا ناکامیوں کا غم نہیں ہوتا
بہت ہوتا ہے لیکن شوق منزل کم نہیں ہوتا
یقیناً آپ کے وعدوں میں کوئی دم نہیں ہوتا
مگر یہ بھی حقیقت ہے بھروسہ کم نہیں ہوتا
بجا ہے آپ پھر آمادہ ہیں ترک تغافل پر
مگر اب مجھ سے عرض مدعا پیہم نہیں ہوتا
خزاں کی چیرہ دستی سے نہ گھبراؤ چمن والو
جہان زندگی میں ایک ہی موسم نہیں ہوتا
تعجب سے مرے پیروں کے چھالے دیکھنے والو
رہ ہستی میں فرش سبزہ و شبنم نہیں ہوتا
میں گرتا ہوں سنبھلتا ہوں قدم آگے بڑھاتا ہوں
مری ناکامیوں میں یاس کا عالم نہیں ہوتا
کہاں کی بندگی شاہدؔ اسے حسن طلب کہئے
کسی کے آستاں پر سر کسی کا خم نہیں ہوتا