یہ خیال شوق پرور دل کے بہلانے کو ہے

یہ خیال شوق پرور دل کے بہلانے کو ہے
کوئی بے رخ بے رخی سے باز آ جانے کو ہے


یہ معمہ میکدے میں کون سلجھانے کو ہے
بے خودی ہشیار کو اور ہوش دیوانے کو ہے


راز در پردہ کا پردہ خود بخود اٹھ جائے گا
بس فقط ان سے نظر دو چار ہو جانے کو ہے


میکدے میں شیخ کا آنا شگن اچھا نہیں
ہوش کی لے ساقیا رندوں کو بہکانے کو ہے


سادگی ششدر کھڑی ہے شوخیاں سینہ سپر
اک ادا جانے کو ہے اور اک ادا آنے کو ہے


اللہ اللہ یہ نظام ہوش و مستی ساقیا
ہوش مستانے کو ہے اور کیف پیمانے کو ہے


جام و مینا کی ضرورت ہی نہیں مجروحؔ کو
مست نظروں سے کوئی مدہوش فرمانے کو ہے