یہ کون میری تشنگی بڑھا بڑھا کے چل دیا

یہ کون میری تشنگی بڑھا بڑھا کے چل دیا
کہ لو چراغ درد کی بڑھا بڑھا کے چل دیا


یہ میرا دل ہی جانتا ہے کتنا سنگ دل ہے وہ
کہ مجھ سے اپنی دوستی بڑھا بڑھا کے چل دیا


بچھڑ کے اس سے زندگی وبال جان ہو گئی
وہ دل میں شوق خودکشی بڑھا بڑھا کے چل دیا


کروں تو اب میں کس سے اپنی وسعت نظر کی بات
وہ مجھ میں حس آگہی بڑھا بڑھا کے چل دیا


نہ دید کی امید اب نہ لطف نغمۂ وصال
کہ لے وہ ساز ہجر کی بڑھا بڑھا کے چل دیا


وہ آیا اکبرؔ اس ادا سے آج میرے سامنے
کہ اک جھلک سی خواب کی دکھا دکھا کے چل دیا