یہ جو سر ہم تری چوکھٹ سے لگائے ہوئے ہیں
یہ جو سر ہم تری چوکھٹ سے لگائے ہوئے ہیں
یہ سمجھ لے کہ زمانے کے ستائے ہوئے ہیں
ہم نے اس دل کو کہیں اور لگایا ہوا ہے
اور یہ ہاتھ کہیں اور اٹھائے ہوئے ہیں
تجھے دیکھوں تو مجھے یاد یہ کون آتا ہے
تو نے یہ رنگ بھلا کس کے چرائے ہوئے ہیں
کار دنیا نے ہمیں مہلت یک خواب نہ دی
سو کہیں کھوئے ہوئے ہیں نہ ہی پائے ہوئے ہیں
ہم ہی کچھ گوش بر آواز نہیں تھے ورنہ
تم نے پہلے بھی یہی بول سنائے ہوئے ہیں
کس لئے یاد دلاتے ہو ابھی رہنے دو
کیا ہوا ہم جو کوئی بات بھلائے ہوئے ہیں
کام جو ہم سے نہیں ہوگا کئے جاتے ہیں
ہم سے اٹھتا جو نہیں بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں
دیکھنے کی تجھے کچھ دل میں ہے حسرت بھی ابھی
اور یہ بھی کہ ترے شہر میں آئے ہوئے ہیں