یہ جو چار دن کی تھی زندگی اسے تیرے نام نہ کر سکا

یہ جو چار دن کی تھی زندگی اسے تیرے نام نہ کر سکا
مجھے رنج ہے ترے شہر میں یہ سفر تمام نہ کر سکا


ترے راستے میں رواں دواں، رہا تیرے گرد و غبار میں
تجھے ڈھونڈتے تجھے چھانتے میں کہیں قیام نہ کر سکا


میں اس آدمی سے تھا ہم کلام کہ جو چھا گیا مرے چار سو
اسے دل پہ لینا نہ دوستو، میں اگر سلام نہ کر سکا