یہ جسم مرا تھک کے بہت چور ہوا ہے
یہ جسم مرا تھک کے بہت چور ہوا ہے
کس کار مسلسل پہ یہ معمور ہوا ہے
وہ نیند ملی ہے کہ جو پوری نہیں ہوتی
وہ خواب ملا ہے کہ جو معذور ہوا ہے
جو خوف جراحت میں کھلا چھوڑ دیا تھا
وہ زخم موادوں بھرا ناسور ہوا ہے
اک بار اگر سانحہ میں سود جو دیکھا
پھر ذوق حوادث بڑا بھرپور ہوا ہے
کچھ وقت ذرا اور نہر دودھ کی لے گی
فرہاد کو تیشہ نہیں منظور ہوا ہے
جو ہم سے یہ کہتے تھے روایت نہیں اس کی
اب ان کے ہی کہنے پہ یہ دستور ہوا ہے
اب مصلحتاً ہی ہوا پیدا کوئی موسیٰ
اب مصلحتاً کوہ کوئی طور ہوا ہے