یہ حکم ہے تری راہوں میں دوسرا نہ ملے
یہ حکم ہے تری راہوں میں دوسرا نہ ملے
شمیم جاں تجھے پیراہن صبا نہ ملے
بجھی ہوئی ہیں نگاہیں غبار ہے کہ دھواں
وہ راستہ ہے کہ اپنا بھی نقش پا نہ ملے
جمال شب مرے خوابوں کی روشنی تک ہے
خدا نہ کردہ چراغوں کی لو بڑھا نہ ملے
قدم قدم مری ویرانیوں کے رنگ محل
دلوں کو زخم کی سوغات خسروانہ ملے
تم اس دیار میں انساں کو ڈھونڈھتی ہو جہاں
وفا ملے تو بہ احساس مجرمانہ ملے
گئے دنوں کے حوالے سے تم کو پہچانا
ہم آج خود سے ملے اور والہانہ ملے
کدھر سے سنگ چلا تھا اداؔ کہاں پہنچا
جو ایک ٹھیس سے ٹوٹیں انہیں بہا نہ ملے