یہ ہے تو سب کے لیے ہو یہ ضد ہماری ہے
یہ ہے تو سب کے لیے ہو یہ ضد ہماری ہے
اس ایک بات پہ دنیا سے جنگ جاری ہے
اڑان والو اڑانوں پہ وقت بھاری ہے
پروں کی اب کے نہیں حوصلوں کی باری ہے
میں قطرہ ہو کے بھی طوفاں سے جنگ لیتا ہوں
مجھے بچانا سمندر کی ذمہ داری ہے
اسی سے جلتے ہیں صحرائے آرزو میں چراغ
یہ تشنگی تو مجھے زندگی سے پیاری ہے
کوئی بتائے یہ اس کے غرور بے جا کو
وہ جنگ میں نے لڑی ہی نہیں جو ہاری ہے
ہر ایک سانس پہ پہرا ہے بے یقینی کا
یہ زندگی تو نہیں موت کی سواری ہے
دعا کرو کہ سلامت رہے مری ہمت
یہ اک چراغ کئی آندھیوں پہ بھاری ہے