یہ دل دنیا سے باز آنے لگا ہے

یہ دل دنیا سے باز آنے لگا ہے
کہ اب سینے میں راز آنے لگا ہے


اذاں ہونے لگی محراب جاں میں
مرا وقت نماز آنے لگا ہے


یوں ہی اک زخم پر دے دی تھی اصلاح
سو اب لے کر بیاض آنے لگا ہے


بہت سے زخم تھے اب صرف اک زخم
لہو میں ارتکاز آنے لگا ہے


بہت اب ہو چکی دنیا سے یاری
ادھر سے اعتراض آنے لگا ہے


بہت کاری ہے اب کے عقل کا وار
جنوں کو امتیاز آنے لگا ہے