یہ دور مجھ سے خرد کا وقار مانگے ہے
یہ دور مجھ سے خرد کا وقار مانگے ہے
دل اب بھی شوق کے لیل و نہار مانگے ہے
جہاں میں کس کو گوارا ہوئی ہے فکر کی دھوپ
ہر اک، کوئی شجر سایہ دار مانگے ہے
زبان لالہ و گل میں بسی ہوئی ہے مگر
زمانہ لفظ میں خنجر کی دھار مانگے ہے
اکیلے پن کا یہ احساس ہم نفس کی تلاش
بڑھی ہوئی جو یہ تلخی ہے پیار مانگے ہے
یہ آدمی مرے خوابوں کا ساتھ کیا دیتا
حقیقتوں سے جو اکثر فرار مانگے ہے
اب ان میں اپنا لہو ہو کہ کوئی شوخ کرن
ورق جو سادہ ہے نقش و نگار مانگے ہے
ہوا کہاں ابھی صدیوں کے جبر سے آزاد
خدائی پر جو بشر اختیار مانگے ہے
بھکاریوں کو یہاں بھیک کون دیتا ہے
ہے سادہ لوح جو دنیا سے پیار مانگے ہے
وہ دیدہ ور جسے پہچانتی نہیں محفل
تری نظر سے فقط اعتبار مانگے ہے