یہ بستیاں ویراں نہیں
نہیں یہ بستیاں ویراں نہیں
اب بھی یہاں کچھ لوگ رہتے ہیں
یہ وہ ہیں جو کبھی
زخم وفا بازار تک آنے نہیں دیتے
یہاں کچھ خواب ہیں
جو سانس لیتے ہیں
جوان خوابوں کو تم دیکھو تو ڈر جاؤ
فلک آثار بام و در
یہاں وقعت نہیں رکھتے
کلاہ و زر یہاں قیمت نہیں رکھتے
یہ کتنے لوگ ہیں
بے نام ہیں بے لاگ ہیں
بے ساختہ جینے کے طالب ہیں
یہ دل کے بوجھ کا احوال
اپنے حرف خود لکھنے کے طالب ہیں
اجالے کی سخی کرنوں کو
زنداں سے رہائی دو