یہ اور بات ہے کچھ غم جہاں جہاں نہ ہوا
یہ اور بات ہے کچھ غم جہاں جہاں نہ ہوا
ہمارے حال کا چرچا کہاں کہاں نہ ہوا
ہوئے ہو جاں بہ لب اب ہوگا کیا تمنا کا
جہاں پہ ڈھونڈتے ہو دل اگر وہاں نہ ہوا
ملے جو جرم وفا کی سزا یہیں پہ ملے
حساب اپنا کہاں ہوگا جو یہاں نہ ہوا
نہیں ہیں آنسو ہی کوئی زباں مرے دل کی
ہے ایسا اشک بھی آنکھوں سے جو رواں نہ ہوا
ہوا کیا جانیے دل کو مرے شب تاریک
ہزاروں داغ مگر ایک بھی عیاں نہ ہوا
چڑھایا دار پہ اور کر دیا مجھے زندہ
یہ اور کچھ ہوا حسرت ہے امتحاں نہ ہوا
سنا رہے ہو یوں وحشت میں حال غم جو عزمؔ
ہوا وہ نالۂ دل درد کا بیاں نہ ہوا