یوم آزادی
چمن میں ناز سے اٹھکھیلیاں کرتی بہار آئی
گلوں کا پیرہن پہنے وہ جان انتظار آئی
چمن والے سبھی فرط مسرت سے پکار اٹھے
بہار آئی بہار آئی بہار آئی بہار آئی
کہیں کلیوں کو چھیڑا ہے کہیں پھولوں کو چوما ہے
گلے مل مل کے پتوں سے وہ یوں روٹھی بہار آئی
نصیبہ جاگ اٹھا پھر سبھی اہل گلستاں کا
دلوں کا داغ دھو دھو کر وہ بار غم اتار آئی
نئی پھر زندگی آئی نیا دل میں سرور آیا
نئے سپنے نئے ارماں نئی آشا ابھار آئی
کھلا ہے میکدے کا در اور اذن عام ہے سب کو
وہاں پر آج رندوں کی قطار اندر قطار آئی
گئے گلشن پہ غیروں کے تو موج رنگ و بو بن کر
ہر اک گلشن سے ہم کو بھی ندائے خوش گوار آئی
نگاہ بد سے دیکھا ہے کسی نے گر گلستاں کو
تو گلچی کی ہر اک سازش ہمیں کو سازگار آئی
جنہوں نے اس چمن کو خون اور اشکوں سے سینچا تھا
بہار آئی تو یاد ان کی ہم کو بار بار آئی
نہ مالی ہو کبھی غافل نہ ان بن اہل گلشن میں
تبھی سمجھیں گے ہم یاروں حقیقت میں بہار آئی
صدا اپنے چمن میں دور دورہ ہو بہاروں کا
حبیبؔ اپنی زباں پر یہ دعا بے اختیار آئی