غزوہ بدر اور شاہنامہ اسلام: حق و باطل کے اولین معرکے کا ایمان افروز بیان
غزوہ بدر ، تاریخ اسلامی کا وہ اولین بڑا معرکہ ہے جو کفرو اسلام کے مابین لڑا گیا۔ اس معرکے میں ہونے والی فتح نے اسلامی ریاست کو، جو اس وقت تک اپنے ابتدائی ایام میں تھی، ایک بڑا حوصلہ اور قوت عطا کی تھی اور دنیا نے یہ جان لیا تھا کہ اب یہ قوت اتنی آسانی سے مٹنے والی نہیں۔ غزوہ بدر کے واقعات ایمان کو تازہ کردینے والے اور دلوں کو دینی جوش و حمیت سے بھر دینے والے ہیں۔ ہماری اسلامی تفسیر و تاریخ میں مختلف علما و فضلا اور مورخین نے ان واقعات کو اپنے اسلوب سے بیان کیا ہے لیکن جو وارفتگی و دل پذیری ابوالاثر حفیظ جالندھری کے ’شاہنامہ اسلام‘ میں نظر آتی ہے، وہ انہی کا خاصہ ہے۔
اگرچہ بدر کے میدان میں پیش آنے واقعات کو اپنے اشعار میں سمونے اور مکمل کرنے کی مہلت زندگی نے خالق شاہنامہ اسلام کو نہیں دی، لیکن اس جنگ سے ماقبل پیش آنے والے واقعات کا روح پرور بیان، معرکہ خیر و شر کے مجاہدوں کے لیے آخرت تک توشہ و تحفہ رہے گا۔ ’یوم بدر‘ کی مناسبت سے چند اشعار کا انتخاب نذر قارئین ہے:
ابوسفیان کے قافلے کی خبر لانے والے ہرکارے کے ذریعے مکے میں جو ابتدائی اشتعال انگیزی ابوجہل اور اس کے ہمنواؤں نے پھیلائی، اس کانقشہ حفیظ جالندھری نے ان اشعار میں کھینچاہے:
اب اہل شہر پہچانے کہ ضمضم ہے یہ ہرکارا
گھڑی میں شہر اس کے گرد اکھٹا ہو گیا سارا
وہ پتھرائی ہوئی آنکھوں سے ہر سو تکتا جا تا تھا
دو ہتڑ پیٹتا جاتا تھا ظالم بکتا جاتا تھا
الجھنے کے لئے تیار تھے پہلے ہی دیوانے
لگے یہ حال سن کر سانپ کے مانند بل کھانے
چنگاری پڑ گئی بارود میں شعلہ بھڑک اٹھا
دلِ ہر ثانی نمرود میں شعلہ بھڑک اٹھا
لگتی تلووں میں آگ ایسی کہ نتھنوں سے دھواں نکلا
غضب کی شکل میں آنکھوں سے مغز استخواں نکلا
بھرے بیٹھے تھے پہلے سے ہی بہانہ اور ہاتھ آیا
اٹھا ابو جہل اک تقریر کی لوگوں کو بھڑکایا
کہا بیوقوفو سوچتے کیا ہو، کمر باندھو
اٹھاؤ نیزہ و خنجر اٹھو تیغ و تبر باندھو
محمدؐ کو یہیں پر ختم کر دو، میں نہ کہتا تھا
مسلمانوں سے قبرستان بھر دو میں نہ کہتا تھا
تمہارے سامنے ہستی ہی کیا ہے اس جماعت کی
مسلماں کیا ہیں اک بے رنگ سی تصویر غربت کی
یہ بھالے برچھیاں پیکان کس دن کام آئیں گے
تمہارے جنگ کے سامان کس دن کام آئیں گے
چلو میدان میں جرات آزماؤ دیکھتے کیا ہو
قریشی نسل کی شوکت دکھاؤ دیکھتے کیا ہو،
ہمارے تین سو اور ساٹھ ہیں، تنہا خدا ان کا
بھلا اتنے خداؤں سے لڑے گا کیا خدا ان کا
اٹھو اے لار و عزیٰ و ہبل کے پوجنے والو
عرب سے ایک خدا کے نام کا دھبہ مٹا لو
مکہ سے مشرکین کا جو لشکر مدینے پر چڑھائی کرنے اور نوزائیدہ اسلامی مملکت و ریاست کو مٹانے کی خاطر نکلا، اس کا احوال شاہنامہ میں کچھ یوں بیان ہوا ہے:
قیامت آ گئی ہر شخص تیاری لگا کرنے
ہر اک تائید خونریزی و خونخواری لگا کرنے
درستی ہو گئی جھٹ نیز و شمشیر و خنجر کی
چڑھی آندھی مدینے کی طرف باطل کے لشکر کی
قریشی نسل کے مردان جنگی سر بکف ہو کر
بڑے گھوڑوں پہ یا اونٹوں پہ چڑھ کر صف بصف ہو کر
نصر، بونجتری، حرث ابن عامر تھے یہ سب افسر
ابو جہل اور عتبہ اور شیبہ تھے یہ سر لشکر
چلے وہ سب کے سب جن کو پیمبرؐ سے عداوت تھی
منبہ اور رقعہ، عاص بن ہشام و عقبر بھی
قریشی سورما اکثر شریکِ فوِ ج باطل تھے
کہ سب جنگ آزمودہ تیغ زن تھے اور قاتل تھے
یہ لشکر مشتمل تھا ساڑھے گیارہ سو جوانوں پر
دلوں میں بغض، نعرے کفر کے ان کی زبانوں پر
یہ لشکر بڑھ رہا تھا کعبہ توحید ڈھانے کو
مسلمانوں سے لڑنے کو، مدینے کے گرانے کو
یہ لشکر مکہ سے روانہ ہوا، تو غالباًدو دن بعد ہی ابوسفیان اپنا مال بچا کر صحیح سالم مکہ پہنچ گیا۔ یہاں آکر اس نے ابوجہل کو پیغام بھیجا کہ لڑنےکی ضرورت باقی نہیں رہی، لیکن ابوجہل پر تو جنگ کا بھوت سوار تھا اور وہ صرف قافلے کے لٹنے کا بدلہ لینے نہیں بلکہ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے ارادے سے نکلا تھا، چنانچہ اس نے جنگ لڑنے کا ہی فیصلہ کیا اور کفار کا لشکر مدینے کی جانب بڑھتا گیا۔
ادھر مدینے میں نبی اکرمﷺ کو مکے سے کفار کی روانگی کی اطلاع ملی تو آپؐ نے انصار و مہاجرین دونوں کو مسجد نبوی میں جمع فرمایا :
رسول اللہ نے اک دن مسلمانوں کو بلوایا
بٹھایا مسجدِ نبوی میں سب کو اور فرمایا
کہ دو جانب سے اٹھ کر جنگ کا طوفان آتا ہے ،
قریشی فوج آتی ہے ، ابو سفیان آتا ہے
اٹھائے گا قبائل کو تمہارے سر پہ لائے گا
مدینے پر قیامت ڈھائے گا فتنے اٹھائے گا
ادھر مکے سے لشکر چل چکا ہے لڑنے مرنے کو
تمہارے دین و امن صلح کے برباد کرنے کو
وہ حق سے پھیر لینا چاہتے ہیں تم کو جبریہ
تمہیں پہ فرض ہے اس یورش بے جا کا دفعیہ
مسلمانوں مگر اس راہ میں اللہ کافی ہے
جہاد فی سبیل اللہ میں اللہ کافی ہے
نبی کریمﷺ کی اس دعوت جہاد پر مہاجرین و انصار نے جس شان سےلبیک کہا، اسی شان و شوکت سے شاہنامہ میں اس کا اظہار ابوالاثر کی زبان پرتاثیر نے کیا ہے:
ابو بکرؓ و عمر ؓنے عرض کی اے ہادی دوراں
ہمارے مال، جاں، اولاد سب اسلام پر قرباں
غلامان محمد جان دینے سے نہیں ڈرتے
یہ سر کٹ جائے یا رہ جائے کچھ پروا نہیں کرتے
اٹھے مقدادؓ اٹھ کر عرض کی اے سرور عالمؐ
نہیں ہیں قوم موسیٰ کی طرح کہہ دینے والے ہم
خدا کو ساتھ لے جا اور باطل سے لڑائی کر
ہمارے واسطے خود جا کے قسمت آزمائی کر
ہمارا فخریہ ہے ہم غلامان محمدؐ ہیں
ہمیں باطل کا ڈر کیا زیر دامان محمدؐ ہیں
بزرگان مہاجر نے دکھائی جب توانائی
رسول اللہؐ نے سن کر دعائے خیر فرمائی
صف انصار کی جانب اٹھیں آنکھیں نبوت کی
تو سعد ابن معاذؓ اٹھے دکھائی شان جرات کی
ادب سے عرض کی انصار ہیں ہم یا رسول اللہؐ
غلام سید ابرار ہیں ہم یا رسول اللہؐ
خدا نے ہم غریبوں پر عجب احسان فرمایا
کہ ختم المرسلیں ؐ اس شہر میں تشریف لے آیا
تو کیا اب موت کے ڈر سے یہ دولت ہم گنوا دیں گے
بھلا دیں گے احساں بار لغت سر پہ لا دیں گے
تعالی اللہ یہ شیوہ نہیں ہے با وفاؤں کا
پیا ہے دودھ ہم لوگوں نے غیرت دار ماؤں کا
ہمیں میدان میں لے جائیے یا شہر میں رہئے
کسی سے صلح کو فرمائیے یا جنگ کو کہئے
ہمارا مرنا جینا آپ کے احکام پر ہو گا
کسی میدان میں ہو خاتمہ اسلام پر ہو گا
اگر ارشاد ہو بحر فنا میں کود جائیں ہم
ہلاکت خیز گرداب بلا میں کود جائیں ہم
نبیؐ کا حکم ہو تو پھاند جائیں ہم سمندر میں
جہاں کو محو کر دیں نعرہ اللہ اکبر میں
قریش مکہ تو کیا چیز ہیں دیووں سے لڑ جائیں
سنان نیزہ بن کر سینہ باطل میں گڑ جائیں ہم
مہاجرین و انصار کے اس جوش و ولولہ کو دیکھ کر رسول اللہﷺ نے آبدیدہ آنکھوں کے ساتھ دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے اور اسی وقت نصرت و تائید الٰہی بھی آگئی۔ چنانچہ کفار کے لشکر کا سامنا کرنے کو مجاہدین اسلام کا لشکر جس شان بے نیازی سے مدینے سے نکلا، اس کا منظر دیکھیے او ریہ جان لیجیے کہ خدا کے ہاں نصرت دنیاوی سازو سامان اور تعداد سے کبھی مشروط نہیں رہی:
دوم تھا سال ہجری بارھویں تھی ماہ رمضاں کی
کہ نکلی مختصر سی اک جماعت اہل ایماں کی
نکل کر شہر سے تعداد دیکھی جانثاروں کی
تو گنتی تین سو تیرہ تھی ان طاعت گذاروں کی
سلاح جنگ یہ تھا آٹھ تلواریں تھیں چھ زرہیں
غناء کا رنگ یہ تھا چیتھڑوں میں بیسیوں گرہیں
زیادہ لوگ پیدل تھے سواری پر بہت تھوڑے
کہ ستر اونٹ تھے بہر سواری اور دو گھوڑے
ہلا دیتی تھی کہساروں کو جن کی دھاک پیدل تھے
جناب حمزہ ؓکیا خود صاحب لو لاکؐ پیدل تھے
سمندر میں اٹھا کرتی ہے جیسے موج بے پروا
اسی صورت رواں تھی غازیوں کی فوج بے پروا
کھجوریں تک میسر تھیں نہ جن کے پیٹ بھرنے کو
یہ اللہ کے مجاہد تھے چلے تھے جنگ کرنے کو
بہت سے سر بسر محروم گھوڑے سے اور ناقے سے
بہت ایسے تھے جن کی رات بھی کٹتی تھی فاقے سے
خیال عظمت ملت مکیں تھا ان کے سینوں میں
کوئی ساماں نہ تھا، ذوق یقیں تھا ان کے سینوں میں
یہ چند افراد اٹھے تھے ضعیفوں کی حمایت کو
شریروں کے مقابل میں شریفوں کی حمایت کو
میدان بدر میں ایک طرف کفار کا لشکر تھا اور دوسری طرف مسلمانوں کا۔ یہ دونوں لشکر، ان کے ڈیرے اور پڑاؤ، تاریخ کے مسافر کو یہ بتانے کے لیے کافی تھے کہ حق کس طرف ہے اور باطل کس طرف۔ پہلے کفار کے لشکر کا حال سنیے:
تکبر، ظالم، گستاخی، دل آزاری، من و مائی
تشدد، کینہ توزی، ناز، خود بینی، خود آرائی
ستانے کے طریقے قتل کر دینے کی ایجادیں
یہ بچے مادر شب کے اندھیرے کی یہ اولادیں
ہوئے آ آ کے سب شامل گروہ اہل باطل میں
یہ فتنے آ بسے کفار کے تہ خانہ دل میں
خودی نے بھر دیئے تھے کبر کے طوفان ہر سر میں
ڈبونے جا رہے تھے کشتیِ حق آب خنجر میں
لگایا بدر کے میدان میں کفار نے ڈیرا
یہاں تدبیر کی تزویر کو تقدیر نے گھیرا
یہاں بو جہل نے آتے ہی پھر لوگوں کو بھڑکایا
دلایا جوش سب کو اور خود بھی جوش میں آیا
کہا یہ دن وہ ہے جس کی طلب تھی ایک مدت سے
اکٹھے ہیں صنادید قریش اس وقت قسمت سے
ہمارے پہلواں بھاری ہیں سو سو پہلوانوں پر
مدینے بھر میں شور الحذر ہو گا زبانوں پر
یہ سارے مہربانی ہے ہمارے دیوتاؤں کی
چڑھائی ہو گئی ہے اک خدا پر سب خداؤں کی
میں دیکھوں گا کہ وہ تنہا خدا کس کام آتا ہے
کہاں لے جا کے مٹھی بھر جماعت کو چھپاتا ہے
دوسری طرف قافلہ حق کے شہسوار جس حال میں تھے ، اس کا بیاں واقعی شاہنامہ اسلام کا عروج ہے۔ پڑھیے اور سر دھنیے!
نہ ان کے پاس خیمے تھے نہ سامان رسد کوئی
نہ ان کی پشت پر تھا جز خدا بہر مدد کوئی
نہ زرہیں تھیں، نہ ڈھالیں تھیں نہ خنجر تھے نہ شمشیریں
فقط خاموش تسکیں تھی، فقط پر جوش تکبیریں
کوئی ساماں نہیں تھا ایک ہی سامان تھا ان کا
خدا واحد، نبی صادق ہے ، یہ ایمان تھا ان کا
بنا کر اپنے سینوں کی سپر آیات قرآں کو
بظاہر چند تنکے روکنے آئے تھے طوفاں کو
انہی کے نور سے ہر سوُ اجالا ہونے والا تھا
انہی کے دم سے حق کا بول بالا ہونے والا تھا