یک دست برپا ہم نے دونو جہاں میں دیکھا

یک دست برپا ہم نے دونو جہاں میں دیکھا
منصور کو سراسر دار الاماں میں دیکھا


آتش جگر میں گاہے گہہ شعلہ جاں میں دیکھا
اللہ ہم نے کیا کیا عشق بتاں میں دیکھا


کس شعلہ رو کی الفت جوں برق دل میں چمکی
آتش کا یک زباں نہ کام و دہاں میں دیکھا


ہم کو کفن اسی کا لازم ہے ماہرو یاں
الفت کا پرتو آسا ہم نے کتاں میں دیکھا


جو ہیں کھرے انہیں کو دس کھوٹیاں سنائے
ہم نے نیا سلیقہ اس نوجواں میں دیکھا


اے اہل دل خدائے دل نے یہاں دکھائے
دلی میں تھا جو دیکھا کوئے بتاں میں دیکھا


اس خاک پا کا سرمہ آنکھوں میں جب نہ دیکھا
کیا خاک آ کے ہم نے اس خاکداں میں دیکھا


کیا رنگ اشک خونیں فرقت میں ہیں دکھاتی
رنگ بہار ہم نے فصل خزاں میں دیکھا


آنسو سدا رواں ہیں اپنا ہے اب یہ نقشہ
یا رب یہ کس کا نقشہ آب رواں میں دیکھا


تجھ کو کبھی نہ دیکھا دیکھا جہان سارا
گرچہ تجھی کو میں نے سارے جہاں میں دیکھا


جتنے ہیں اہل جوہر ان کو زمیں نہ پاوے
ہم نے غرض یہ جوہر اس آسماں میں دیکھا


شہرہ ہے لکھنؤ کا لیکن نعوذ باللہ
مومن جو واں ہیں ان کو کفر نہاں میں دیکھا


دلی کے ہندوؤں میں ہیں اہل دل ہزاروں
دلی سا شہر کس نے ہندوستاں میں دیکھا


دو دن سے میں جدا ہوں اس مو کمر سے احساںؔ
اک سو طرح کا صدمہ اس درمیاں میں دیکھا