یک بیک یہ ہو گئے انداز کیا

یک بیک یہ ہو گئے انداز کیا
پھر سنی دل نے وہی آواز کیا


سو گیا ہنس کر فنا کی گود میں
اور کرتا بھی کوئی جاں باز کیا


درد ہستی پھر چمک اٹھا ہے آج
ہو گئی غافل وہ چشم ناز کیا


دیر و کعبہ ہی پہ کیا موقوف ہے
دل نہیں ہے جلوہ گاہ ناز کیا


کاکلیں لہرا رہی ہیں دم بہ دم
بج رہا ہے تیرگی کا ساز کیا


قہقہے اشک و تبسم اور فغاں
زندگی کیا زندگی کا راز کیا


ان نگاہوں میں ہے پھر مہر و وفا
رک سکے گی وقت کی پرواز کیا


ہے فقط بیداریٔ احساس نقشؔ
داستان شوق کا آغاز کیا