ہمیشہ یاد رکھنا کہ مزاحمت فضول کام نہیں ہے، یہ محض ایک گولی نہیں ہے جو چلادی جائے

 

میں یحیی ہوں، پناہ گزیں کا بیٹا، جس نے اجنبیت کو ایک عارضی وطن بنالیا اور خواب کو ایک ابدی معرکے میں بدل دیا۔
میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں اور اس وقت میری زندگی کا ہر لمحہ میری نگاہوں کے سامنے ہے۔ گلیوں کے درمیان گزرنے والا بچپن، پھر جیل کے طویل سال، پھر خون کا ہر قطرہ جو اس زمین کی مٹی پر بہایا گیا۔
میں خان یونس کے کیمپ میں سن 1962 میں پیدا ہوا، یہ وہ زمانہ تھا جب میرا وطن  محض ایک یاد تھی جو تار تار کردی گئی تھی، محض کچھ نقشے تھے جو سیاست دانوں کی میزوں پر فراموش حالت میں پڑے تھے۔ 
میں وہ شخص ہوں جس نے اپنی زندگی کو آگ اور راکھ کے بیچ گزارا اور بہت پہلے یہ جان لیا کہ غاصبوں کے سائے میں زندگی گزارنے کا مطلب ایک ہمیشہ کی جیل میں رہنا ہے۔
میں نے کم سنی کے دور میں ہی یہ جان لیا تھا کہ اس سرزمین پر زندگی گزارنا عام بات نہیں ہے۔ جو یہاں پیدا ہوگا اسے اپنے دل کے اندر ناقابل شکست ہتھیار اٹھانا ہوگا اور یہ سمجھنا ہوگا کہ آزادی کا راستہ لمبا ہے۔
آپ لوگوں کے نام میری وصیت یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ اس لڑکے سے جس نے غاصب پر پہلا پتھر پھینکا اور جس نے یہ سیکھا کہ پتھر ہی وہ پہلے الفاظ ہیں جن کے ذریعہ ہم اپنی بات اس دنیا کو سناسکتے ہیں جو ہمارے زخموں کو دیکھ رہی ہے اور خاموش کھڑی ہے۔
میں نے اپنے وطن  کی سڑکوں پر یہ سیکھا کہ انسان کو اس کی عمر کے ماہ و سال سے نہیں ناپا جاتا ہے، بلکہ اس سے ناپا جاتا ہے کہ وہ اپنے وطن کے لیے کیا پیش کرتا ہے۔ میری زندگی اسی سے عبارت تھی، جیل اور جنگیں، تکلیف اور امید۔  
میں نے سب سے پہلے سن 1988 میں جیل میں قدم رکھا اور مجھے عمر قید کی سزا سنائی گئی، لیکن میں نے ڈر کو قریب پھٹکنے نہیں دیا۔
ان تاریک کوٹھریوں  کے اندر میں ہر دیوار میں کھڑکی دیکھتا تھا جس سے دور کا افق دکھائی دیتا تھا۔ ہر سلاخ میں سے روشنی پھوٹتے دیکھتا تھا جو آزادی کا راستہ روشن کرتی تھی۔
جیل میں رہتے ہوئے میں نے سیکھا کہ صبر محض ایک اخلاقی خوبی نہیں ہے بلکہ وہ ایک ہتھیار ہے، کڑوا ہتھیار، جیسے کوئی سمندر کو قطرہ قطرہ کرکے پی لے۔
میری تمھارے لیے وصیت ہے کہ جیلوں سے خوف نہ کھاؤ، جیل تو آزادی کی منزل تک لے جانی والی ہماری طویل راہ کا ایک ٹکڑا ہے۔
جیل نے مجھے سکھایا کہ آزادی محض ایک حق نہیں جو چھین لیا گیا، وہ تو ایک خیال ہے جو تکلیف کی کوکھ سے جنم لیتا ہے اور صبر سے اس کی دھار تیز کی جاتی ہے۔ جب سن 2011 میں ’’احرار کی وفاداری‘ نامی سودے کے تحت میں جیل سے نکلا تو میں پہلے جیسا نہیں رہا تھا۔ جب میں نکلا تو میری شخصیت مضبوط ہوچکی تھی اور اس بات پر میرا یقین بڑھ چکا تھا کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں وہ محض ایک وقتی کشمکش نہیں ہے بلکہ یہ ہماری قسمت ہے جس کی لاج ہم اپنے خون کے آخری قطرے تک اٹھاتے رہیں گے۔
میری وصیت ہے کہ بندوق کو مضبوطی سے تھامے رہو، اس عظمت کے ساتھ جس پر کوئی سودا نہیں ہو اور اس خواب کے ساتھ جو کبھی موت کا منھ نہ دیکھے۔ دشمن چاہتا ہے کہ ہم مزاحمت سے دست بردار ہوجائیں اور اپنے قضیے کو کبھی ختم نہ ہونے والے مذاکرات کے حوالے کردیں۔ 
لیکن میں تم سے کہتا ہوں: جو تمھارا حق ہے اس پر مذاکرات نہ کرنا۔ وہ تمھارے ہتھیاروں سے زیادہ تمھاری استقامت سے خائف ہیں۔ مزاحمت محض ہتھیار نہیں ہیں جو ہم اٹھائے ہوئے ہیں۔ مزاحمت تو فل س طین کے لیے ہماری محبت ہے جو ہماری ہر سانس کے ساتھ تازہ ہوتی ہے۔ مزاحمت تو ہمارا یہ ارادہ ہے کہ حصار و ظلم کے باوجود ہمیں باقی رہنا ہے۔
میری وصیت ہے کہ تم سدا شہداء  کے خون کے لیے وفادار رہنا۔ وہ گزر گئے اور ہمارے لیے یہ کانٹوں بھری راہ چھوڑ گئے۔ انھوں نے اپنے لہو سے ہمارے لیے آزادی کا راستہ ہم وار کردیا۔ سیاست دانوں کے مفادات کی خاطر اور ڈپلومیسی کے کھیلوں میں آکر ان قربانیوں کو رائیگاں نہ جانے دو۔
ہمارا کام یہ ہے کہ اگلوں نے جو آغاز کیا ہے اسے تکمیل تک پہنچائیں اور اس راہ سے ذرا نہ ہٹیں، چاہے اس کے لیے کتنی ہی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے۔ غزہ  استقامت کا مرکز اور فلسطین  کا سدا دھڑکتا دل پہلے بھی تھا اور آئندہ بھی رہے گا، چاہے یہ وسیع و عریض سرزمین ہمارے لیے کتنی ہی تنگ ہوجائے۔  
جب میں نے سن 2017 میں غزہ  میں حماس  کی قیادت سنبھالی تو وہ محض قیادت کی تبدیلی نہیں تھی بلکہ مزاحمت کا تسلسل تھا جو پتھر سے شروع ہوئی تھی اور بندوق سے جاری رہی۔ حصار میں گھری میری قوم کا درد مجھے روز بے چین کرتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ آزادی کی طرف اٹھنے والا ہمارا ہر قدم قیمت چاہتا ہے۔ لیکن میں تم سے کہے دیتا ہوں: ہار مان لینے کی قیمت اس سے بہت بڑی ہوگی۔ اس لیے اس زمین سے چمٹے رہو جس طرح جڑیں مٹی سے جڑی رہتی ہیں۔ جو قوم زندہ رہنے کا فیصلہ کرلیتی ہے اسے کوئی آندھی اکھاڑ نہیں پاتی ہے۔
طوفان اقصی کے معرکے کے دوران، میں کسی جماعت یا تحریک کا قائد نہیں تھا، میں تو ہر اس فلسطینی کی آواز تھا جو آزادی کا خواب اپنے دل میں سجائے ہے۔ میرے ایمان نے مجھے یہ راہ دکھائی کہ مزاحمت محض ایک اختیاری راستہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک فریضہ ہے۔ میں نے چاہا کہ یہ معرکہ فلسطین  کشمکش کی کتاب میں ایک نیا ورق بن جائے۔ تمام مزاحمتی گروپ یک جٹ ہوجائیں، سب ایک خندق کے رفیق بن جائیں اور اس دشمن کا سامنا کریں جس نے کبھی بچے اور بوڑھے کا یا پتھر اور پیڑ کا فرق روا نہیں رکھا۔ 
میں نے کوئی ذاتی ورثہ نہیں چھوڑا، بلکہ اجتماعی وراثت چھوڑ رہا ہوں۔ ہر اس فلسطینی  کے لیے جس نے آزادی کاخواب دیکھا، ہر اس ماں کے لیے جس نے اپنے شہید  بچے کو اپنے کندھوں پر اٹھایا، ہر اس باپ کے لیے جس نے اپنی بچی کو مکار دشمن کی گولی کھاکر تڑپتے دیکھا اور غم کی شدت سے رو پڑا۔
میری آخری وصیت ہے کہ ہمیشہ یاد رکھنا کہ مزاحمت فضول کام نہیں ہے، یہ محض ایک گولی نہیں ہے جو چلادی جائے، بلکہ یہ تو ایک زندگی ہے جسے عزت و عظمت کے ساتھ ہم جی رہے ہیں۔ جیل اور حصار نے مجھے سکھایا ہے کہ یہ معرکہ طویل ہے، راستہ دشوار ہے، لیکن میں نے یہ بھی سیکھا کہ جو قومیں ہار ماننے سے انکار کردیتی ہیں وہ اپنے ہاتھوں سے معجزے تخلیق کرتی ہیں۔
دنیا سے توقع مت رکھنا کہ وہ تمھارے ساتھ انصاف کرے گی۔ میں نے اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ دنیا کس طرح ہمارے الم کو خاموش دیکھتی رہی۔ انصاف کا انتظار مت کرو، بلکہ تم خود انصاف بن جاؤ۔ اپنے دلوں میں فل س ط ین  کا خواب سجاکر رکھو۔ ہر زخم کو ہتھیار بنادو اور ہر آنسو کو امید کے چشمے میں بدل لو۔ 
یہ میری وصیت ہے: اپنے ہتھیار حوالے مت کرنا، پتھر نہ ڈالنا، اپنے شہیدوں کو نہ بھول جانا اور اس خواب پر کوئی سودا نہ کرنا جو تمھارا حق ہے۔
ہم یہاں باقی رہیں گے، اپنی سرزمین میں، اپنے دلوں میں اور اپنے بچوں کے مستقبل میں۔
میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ فل س ط ین  کا خیال رکھنا، اس زمین کا جس سے میں نے موت کی حد تک عشق کیا ہے، اس خواب کا جس کو میں اپنے کندھوں پر اٹھائے رہا، اس پہاڑ کی طرح جو جھکتا نہیں ہے۔
اگر میں گرجاؤں تو تم لوگ میرے ساتھ مت گرجانا، بلکہ میرے ہاتھ سے پرچم اٹھالینا جو کسی دن زمین پر نہیں رہا، میرے خون سے ایک پل تعمیر کرنا جو اس طاقت ور نسل کی راہگزر بنے جو ہماری راکھ سے پیدا ہوگی۔ 
جب طوفان دوبارہ برپا ہو اور میں تمھارے درمیان نہ رہوں تو سمجھ لینا کہ میں آزادی کی موجوں کا پہلا قطرہ تھا اور میں اس لیے زندہ رہا تاکہ تمھیں سفر کی تکمیل کرتے دیکھوں۔
ان کے حلق کا کانٹا بنے رہو، ایسا طوفان بن جاؤ جو پلٹنا نہیں جانتا ہو اور اس وقت تک پرسکون نہ ہو جب تک دنیا یہ نہ جان لے کہ ہم حق والے ہیں۔ ہم خبروں میں درج کی جانے والی گنتیاں نہیں ہیں۔

متعلقہ عنوانات