میں نہ ٹوٹا نہ بکھرا ، نہ دل شکستہ ہوا
17 اکتوبر کا دن ارض مقدس ہی نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے رقم ہو گیا ہے ۔ اس دن ایک ذہین ، تیز رفتار ، چابکدست ، حاضر دماغ اور شیر دل انسان کی روح نے بدن کا ساتھ چھوڑا اور ہمیشہ کی جنتوں کی طرف پروا کر گئی۔
دنیا اسے ابو ابراہیم کے نام سے جانتی ہے۔ ۔ جس نے اپنا بچپن محرومی ، غربت ، اور تنگی میں گزارا ۔ اور زندگی کے اصل۔جوہر سے لطف اندوز ہونے کے لیے جتنا زیادہ مہر ادا کیا جا سکتا تھا ادا کر دیا۔
انھوں نے عسقلان سے تعلق رکھنے والے ایسے خاندان میں آنکھ کھولی جو 1948 کے نکبہ کے نتیجے میں خان یونس کے ایک پناہ گزین کیمپ میں آن بسا تھا اور جہاں یہ خاندان بہت سے دیگر خاندانوں کی طرح کسمپرسی کی حالت میں موت سے لڑنے کے لیے یاتھ پاؤں مار رہا تھا ۔
سکول کی عمر کو پہنچے تو وہیں خان یونس کے ایک سکول میں جانے لگے۔ اسلامی یونیورسٹی غزہ سے عربی ادب میں گریجویشن ہوا اور ماحول کی تنگی نے روح اور عقل کو حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے خوب پروان چڑھا دیا ۔
دنیا بھر میں بسنے والے بھانت بھانت کے اجسام اور ان کے اندر ودیعت کردہ خداداد صلاحتییں۔ مگر کم ہی ایسے خوش نصیب اور قیمتی ہوتے ہیں۔ جو نہ صرف خود اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر چمکانا شروع کر دیتے ہیں بلکہ قدرت بھی انھیں اونچا اڑانے کے لیے بے تاب ہوتی ہے وہ اسباب ، حالات اور امکانات کی ایسی بھٹیوں سے انھیں گزارتی ہے جہاں سے بار بار گزرنے سے وہ کندن ہو کر صیقل ہو جاتے ہیں اور باقی دنیا اپنے عشرت کدوں میں بیٹھی خود کو زنگ آلود کرنے میں مصروف رہتی ہے۔ قدرت نے جس سے جتنا بڑا کام لینا ہو اسے اتنی ہی بڑی آزمائش کی بھٹی سے گزارتا ہے۔ کوئی خدا کی اس سنت کو پہچان کر کندن بننے کو تیار ہو جاتا ہے کوئی ہم جیسا تھڑدلا گھبرا کر روتا پیٹتا ہے اور کوئی ہاتھ پیر مارنے کی بجائے خاموشی سے راکھ کا ڈھیر بن جاتا ہے۔
ہر انسان اپنے اختیار اور چناؤ کے بعد اپنے لیے ہمیشگی کا مقام طے کرنے میں آزاد ہے۔
ابو ابراہیم نے آزمائش کی بھٹیوں سے گزرتے ہوئے اپنے آپ کو پہچان لیا اور پھر قدرت کے بطور تحفہ دئیے گئے پروں کو لے کر ایسی اڑان بھری کہ افق کے اس پار جا پہنچا۔
خدا نے انھیں قائدانہ صلاحیتوں سے مالا مال کیا تھا ان کے اندر عسکری سوفٹ وئیر انسٹال کر کے بھیجا گیا تھا۔ سو حماس میں آنے کے بعد اس کے عسکری ونگ میں سیکورٹی ونگ " مجد" قائم کرنے کا سہرا بھی انھیں کے سر ہے ۔ اسی پاداش میں قابض فورسز کے ہاتھوں گرفتار کر لیے گئے۔
ابو ابراہیم نے حماس کی قیادت کو سیکورٹی ونگ کی ضرورت کی جانب پہلی بار متوجہ کیا۔
ان کا خیال تھا کہ عسکری شعبے کی مضبوطی کا بہت زیادہ انحصار اس پر ہے کہ آپ کے اندر احتساب ، پڑتال اور ہر طرح سے احتیاط اور چیک کرنے کا اہتمام بہت مضبوط ہو۔ ۔
اسی ونگ کے تحت حماس کے ممبران اور قائدین تک کو سخت احتساب ، سوال جواب اور پڑتال سے گزرنا پڑتا ۔ جس سے ایک جانب ان کی وفاداری کو جانچا جاتا
اور دوسری جانب اس خدشے کا توڑ ممکن بنایا جاتا کہ حماس میں شامل افراد میں سے کوئی جیل میں یا جیلوں سے باہر دشمن کی جاسوسی پر مامور نہ رہے۔
( اس ضمن میں کچھ ایسے لوگ بھی پڑتال کے بعد قتل بھی کیے گیے۔ جن کے متعلق غلط فہمی ہوئی تھی یا نظام کی سختی کی وجہ سے یہ غلطی سرزد ہوئی اور بعد ازاں ان کے خاندانوں کو دیت بھی ادا کی گئی۔ )
ابو ابراہیم آغاز میں چار ماہ۔
پھر مجد ونگ بنانے کے جرم میں اٹھ ماہ کے لیے گرفتار ہوئے۔
اور بعد ازاں سکیورٹی ونگ اور ایک عسکری ونگ " المجاھدون الفلسطینیوں" بنانے کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ اور پھر قریب 23 سال کے بعد ان کی رہائی عمل میں آئی۔
اسی لمبی گرفتاری کے دوران وہ شدید بیمار ہو گئے۔ جیل کے دوران بیماری کو جھیلنا بذات خود ایک مشکل مرحلہ ہے ۔جبکہ ابو ابراہیم ہسپتال جانے کی درخواست دینے پر بھی آمادہ نہ ہوتے تھے۔ آخر جیل کے ساتھیوں کے اصرار اور تکلیف کی شدت میں اضافے کے باعث انھیں جیل میں واقع ہسپتال لے جایا گیا۔ شنید تھی کہ ان کے سر میں کسی قسم کا کوئی مرض ہے جو بعد ازاں کینسر جیسے موذی مرض کی تشخیص پر منتج ہوا۔ ۔
ابو ابراہیم نے نہ صرف جیل کی یہ اذیت ناک طویل ، صبر آزما قید جس میں بعض مراحل قید تنہائی کے بھی تھے صبر و ثبات کے ساتھ کاٹی ۔بلکہ ساتھ ساتھ بیماری سے لڑے اور تیسرا اہم ترین کام سیکھنے سکھانے کا کیا۔
جیل میں اپنے ارد گرد موجود ساتھیوں کو صرف اور نحو سکھاتے ۔ اور اپنے لیے عبرانی زبان سیکھنے کا اہتمام کیا۔
ان دونوں امور کا انتخاب انھوں نے نہایت ذہانت سے کیا۔
نہ سکھانے کے لیے کسی امدادی زرایع کی ضرورت تھی نہ ہی سیکھنے کے لیے۔ میسر ا گیے تو کیا کہنے نہ آئے تو جیل کے سیکورٹی گارڈ ، وہاں موجود چیزوں پر لکھی عبارتیں ، ہر کچھ کسی بعد بدلتی جیلیں اور بیرکیں ، اور نئے نئے قد کے ساتھی۔
ان کے حوالے سے خاص بات یہ تھی کہ عبرانی زبان نہ سیکھی بلکہ زبان کی آڑ میں ان کے سماج ، بودو باش ، خیالات ، سوچنے کے انداز اور طریقے ، ترجیحات اور خدشات سب کا بنظر غائر مطالعہ کیا۔ جیل میں عبرانی اخبارات اور لٹریچر کا بہت زیادہ گہرا مطالعہ کرتے رہے۔ جس سے انھیں اسرائیل کی نفسیاتی اپچ ، داخلی وضع ، عسکری اپروچ اور ان کے اسالیب کا نباض بنا دیا۔ جس نے بعد ازاں حماس کی سیاسی اور عسکری پالیسیز طے کروانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
اس حوالے سے وہ حماس کی قیادت میں سب سے ممتاز اور نمایاں تھے۔
جیل ہی میں انھوں نے ایک ناول ( الشوك و القرنفل ) لکھ کر دنیا تک فـلـسـطـــیـنــی مزاحمت کی داستان پہنچانے کی کوشش کی۔
شہادت کے بعد طویل قید میں ساتھ رہنے والے کئی ساتھیوں نے ( جن کا تعلق ہ مختلف طبقہ ہائے فکر سے ہے ) الشرق الاوسط کو اپنی جیل کی یادداشتیں اور ان کی شخصیت کے متعلق تاثرات ریکارڈ کروائے ہیں ۔ جن میں ان کی شخصیت کی دو نمایا ں خوبیوں کا تذکرہ تقریبا ہر ایک نے کہا ہے :
اول : انتہائی عوامی ، بے تکلف ، پر مزاح اور آسان و متواضع آدمی
دوم : ڈسپلن اور اصولوں پر شدید سخت ، بے لچک ، اور فوجی مزاج خصوصا فورسز کے احتساب کے ضمن میں۔ ۔
ایک ساتھی نے کہا یہ دو خوبیاں ان میں الگ الگ مگر ساتھ ساتھ اس طرح چلتی تھیں کہ بسا اوقات ہوں لگتا کہ ان میں دو صفات کی حامل دو الگ الگ شخصیات بستی ہیں۔
2011 میں ان کی رہائی اس وقت عمل میں آئی جب اسرائیلی جاسوس شالیت کی حـمـاس کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد دشمن نہ صرف حـمـاس کی قیادت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے مجبور ہوا بلکہ تبادلے کے طور پر قابض قوتوں کی جیلوں میں موجود ایک ہزار سے زائد فلسطینیوں کی رہائی عمل میں آئی۔ جن میں سے ایک ابو ابراہیم بھی تھے۔
یاد رہے کہ جب شالیت کو پکڑا گیا تو اس قید کے دوران جو لوگ اس کی نگرانی پر مامور تھے ان کی کمان ابو ابراہیم کے بھائی محمد السنوار کر رہے تھے۔
بعد ازاں قابض قوتوں کے ساتھ فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی فائل تیار کرنے اور شرائط منوانے میں بھی ان کا اہم۔کردار رہا۔
جیل سے رہائی کے فورا بعد حـمـاس کے اندر ہونے والے انتخابات میں شہید قائد نے بھی حصہ لیا اور سیاسی ونگ کے ممبر منتخب ہو گئے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ عسکری ونگ " قـسـام بریگیڈ " کی کمانڈ بھی کرتے رہے۔
اگر دنیا والوں کی یاد داشت اچھی ہے تو انھیں یاد ہو گا کہ سات اکتوبر کے طوفان کے بعد فـلـسـطـیـن کی بابت دنیا بھر کے عوام کی رائے عامہ جس تیزی سے تبدیل ہوئی ہے ۔ وہ کسی معجزے سے کم نہیں۔ مگر اسکے پیچھے ابو ابراہیم کی بصیرت ، عالمی قزاقوں کی نبض شناسی اور بہترین عسکری اور قائدانہ صلاحیتیں کار فرما تھیں۔
اس طوفان کے بعد سے قابض قوتیں اور ان کے عالمی پشت پناہ بار بار انھیں کا نام لے کر انھیں اس پوری صورت حال کا ذمہ دار ٹھہرا رہے تھے۔
یہ دشمن کو مطلوب افراد میں سے عرصے سے سر فہرست تھے ۔ دشمن کے شاطر مگر چھوٹے دماغ میں یہ خیال سمانا ہی بڑا مشکل ہے کہ ابو ابراہیم کی زندگی جس نظریے سے عبارت ہے اسکا جسم کے مرنے اور جینے سے کوئی تعلق نہیں۔ ۔بلکہ وہ تو ارواح کے ساتھ وابستہ زندگی ہے اور کوچ کرنے والی روح گویا ایک بیج سے اگنے والا ایسا درخت ہے جو بے شمار پھل لاتا اور نئے بیج پیدا کرتا چلا جاتا ہے۔
اس شہادت نے بھی ابو ابراہیم کی اسرار بھری زندگی کے کچھ رازوں سے یوں پردہ سرکایا ہے کہ مقتل گاہ ایک روشن اور تابناک سٹیج کا منظر پیش کرنے لگ گیا ہے۔ جس پر چلتے مناظر کبھی حال کی تصویر کشی کرتے ہیں کبھی ماضی کی ریل چلنے لگتی ہے اور کبھی مستقبل کے خدو خال واضح ہونے لگتے ہیں۔
ان کے ایک ساتھی نے اس شہادت پر اس سٹیج پر پل پل بدلتے مناظر کے پس منظر میں اپنی آواز میں یہ مکالمہ ریکارڈ کروایا ہے :
قابض فوج کا سب سے بہادر سب سے نڈر سب سے زیادہ جنگی مہارت رکھنے والا کمانڈر بھی غــزـ ہ کی اس ہولناک جنگ میں کسی سرنگ میں چھپ کر بھی وہ قائدانہ کردار نہیں نبھا سکتا جو ابو ابراہیم نے گذشتہ ایک سال سے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اس صوفے پر اپنی جان اللہ کے سپرد کرنے تک ادا کر کے گیے ہیں۔ ۔تمام تر بے سرو سامانی ، جنگ کی تباہ کاریوں ، نسل کشی ، قحط ، عالمی سیاسی و عسکری تنہائی کے اعصاب شکن مراحل اور چیلنجز سے کس قدر چابکدستی سے نبھائے کہ سرنگ میں بیٹھ کر صورت حال کو کمانڈ کرنے کی بجائے اگلی صفوں میں دشمن سے دو دو ہاتھ کر کے ہلکے پھلکے اعصاب کے ساتھ روانہ ہو گیا۔ ۔۔۔پھولوں جیسا ہلکا اور معطر۔
دنیا کو یہ لگا ہو گا کہ ابو ابراہیم نے یہ جنگ چار یا پانچ ہفتوں یا مہینوں کو ذہن میں رکھ کر چھیڑی تھی۔ اور اب تھک کر چور چور ہو چکے ہوں گے۔ نہیں بخدا ! وہ سب سے پہلے اس شے کے لیے تیار ہوئے تھے کہ ہمیں یہ جنگ سالوں تک لڑنا ہے۔ وہ اپنی اعصابی اور ذہنی تیاری کا مرحلہ جسمانی تیاری سے بہت پہلے طے کر چکے تھے۔ ۔
اس لیے قابض قوتوں کے ساتھ صرف ایک شرط پر جنگ بندی کے لیے تیار تھے کہ ہم تمھارے سب قیدی چھوڑتے ہیں تم آہنی جیلیں سب فلسطینیوں سے خالی کر دو۔
اور اگر نہیں تو پھر آو اہنے اعصاب ہی ہمارے ساتھ آزما کر دیکھ لو۔
لو دیکھ لو !
میں نہ ٹوٹا نہ بکھرا ، نہ دل شکستہ ہوا۔
بلکہ سرخرو ہو کر اس حقیر دنیا سے بہت اوپر اٹھ گیا ہوں اس حال میں کہ میرے رب نے میری تمنا اور آرزو ایسے پوری کی جیسا کہ میں چاہتا تھا۔ ۔
اب تم اپنے اعصاب کی برداشت دیکھ لو۔
فزت و رب الكعبة
دنیا اسے ابو ابراہیم کے نام سے جانتی ہے۔ ۔ جس نے اپنا بچپن محرومی ، غربت ، اور تنگی میں گزارا ۔ اور زندگی کے اصل۔جوہر سے لطف اندوز ہونے کے لیے جتنا زیادہ مہر ادا کیا جا سکتا تھا ادا کر دیا۔
انھوں نے عسقلان سے تعلق رکھنے والے ایسے خاندان میں آنکھ کھولی جو 1948 کے نکبہ کے نتیجے میں خان یونس کے ایک پناہ گزین کیمپ میں آن بسا تھا اور جہاں یہ خاندان بہت سے دیگر خاندانوں کی طرح کسمپرسی کی حالت میں موت سے لڑنے کے لیے یاتھ پاؤں مار رہا تھا ۔
سکول کی عمر کو پہنچے تو وہیں خان یونس کے ایک سکول میں جانے لگے۔ اسلامی یونیورسٹی غزہ سے عربی ادب میں گریجویشن ہوا اور ماحول کی تنگی نے روح اور عقل کو حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے خوب پروان چڑھا دیا ۔
دنیا بھر میں بسنے والے بھانت بھانت کے اجسام اور ان کے اندر ودیعت کردہ خداداد صلاحتییں۔ مگر کم ہی ایسے خوش نصیب اور قیمتی ہوتے ہیں۔ جو نہ صرف خود اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر چمکانا شروع کر دیتے ہیں بلکہ قدرت بھی انھیں اونچا اڑانے کے لیے بے تاب ہوتی ہے وہ اسباب ، حالات اور امکانات کی ایسی بھٹیوں سے انھیں گزارتی ہے جہاں سے بار بار گزرنے سے وہ کندن ہو کر صیقل ہو جاتے ہیں اور باقی دنیا اپنے عشرت کدوں میں بیٹھی خود کو زنگ آلود کرنے میں مصروف رہتی ہے۔ قدرت نے جس سے جتنا بڑا کام لینا ہو اسے اتنی ہی بڑی آزمائش کی بھٹی سے گزارتا ہے۔ کوئی خدا کی اس سنت کو پہچان کر کندن بننے کو تیار ہو جاتا ہے کوئی ہم جیسا تھڑدلا گھبرا کر روتا پیٹتا ہے اور کوئی ہاتھ پیر مارنے کی بجائے خاموشی سے راکھ کا ڈھیر بن جاتا ہے۔
ہر انسان اپنے اختیار اور چناؤ کے بعد اپنے لیے ہمیشگی کا مقام طے کرنے میں آزاد ہے۔
ابو ابراہیم نے آزمائش کی بھٹیوں سے گزرتے ہوئے اپنے آپ کو پہچان لیا اور پھر قدرت کے بطور تحفہ دئیے گئے پروں کو لے کر ایسی اڑان بھری کہ افق کے اس پار جا پہنچا۔
خدا نے انھیں قائدانہ صلاحیتوں سے مالا مال کیا تھا ان کے اندر عسکری سوفٹ وئیر انسٹال کر کے بھیجا گیا تھا۔ سو حماس میں آنے کے بعد اس کے عسکری ونگ میں سیکورٹی ونگ " مجد" قائم کرنے کا سہرا بھی انھیں کے سر ہے ۔ اسی پاداش میں قابض فورسز کے ہاتھوں گرفتار کر لیے گئے۔
ابو ابراہیم نے حماس کی قیادت کو سیکورٹی ونگ کی ضرورت کی جانب پہلی بار متوجہ کیا۔
ان کا خیال تھا کہ عسکری شعبے کی مضبوطی کا بہت زیادہ انحصار اس پر ہے کہ آپ کے اندر احتساب ، پڑتال اور ہر طرح سے احتیاط اور چیک کرنے کا اہتمام بہت مضبوط ہو۔ ۔
اسی ونگ کے تحت حماس کے ممبران اور قائدین تک کو سخت احتساب ، سوال جواب اور پڑتال سے گزرنا پڑتا ۔ جس سے ایک جانب ان کی وفاداری کو جانچا جاتا
اور دوسری جانب اس خدشے کا توڑ ممکن بنایا جاتا کہ حماس میں شامل افراد میں سے کوئی جیل میں یا جیلوں سے باہر دشمن کی جاسوسی پر مامور نہ رہے۔
( اس ضمن میں کچھ ایسے لوگ بھی پڑتال کے بعد قتل بھی کیے گیے۔ جن کے متعلق غلط فہمی ہوئی تھی یا نظام کی سختی کی وجہ سے یہ غلطی سرزد ہوئی اور بعد ازاں ان کے خاندانوں کو دیت بھی ادا کی گئی۔ )
ابو ابراہیم آغاز میں چار ماہ۔
پھر مجد ونگ بنانے کے جرم میں اٹھ ماہ کے لیے گرفتار ہوئے۔
اور بعد ازاں سکیورٹی ونگ اور ایک عسکری ونگ " المجاھدون الفلسطینیوں" بنانے کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ اور پھر قریب 23 سال کے بعد ان کی رہائی عمل میں آئی۔
اسی لمبی گرفتاری کے دوران وہ شدید بیمار ہو گئے۔ جیل کے دوران بیماری کو جھیلنا بذات خود ایک مشکل مرحلہ ہے ۔جبکہ ابو ابراہیم ہسپتال جانے کی درخواست دینے پر بھی آمادہ نہ ہوتے تھے۔ آخر جیل کے ساتھیوں کے اصرار اور تکلیف کی شدت میں اضافے کے باعث انھیں جیل میں واقع ہسپتال لے جایا گیا۔ شنید تھی کہ ان کے سر میں کسی قسم کا کوئی مرض ہے جو بعد ازاں کینسر جیسے موذی مرض کی تشخیص پر منتج ہوا۔ ۔
ابو ابراہیم نے نہ صرف جیل کی یہ اذیت ناک طویل ، صبر آزما قید جس میں بعض مراحل قید تنہائی کے بھی تھے صبر و ثبات کے ساتھ کاٹی ۔بلکہ ساتھ ساتھ بیماری سے لڑے اور تیسرا اہم ترین کام سیکھنے سکھانے کا کیا۔
جیل میں اپنے ارد گرد موجود ساتھیوں کو صرف اور نحو سکھاتے ۔ اور اپنے لیے عبرانی زبان سیکھنے کا اہتمام کیا۔
ان دونوں امور کا انتخاب انھوں نے نہایت ذہانت سے کیا۔
نہ سکھانے کے لیے کسی امدادی زرایع کی ضرورت تھی نہ ہی سیکھنے کے لیے۔ میسر ا گیے تو کیا کہنے نہ آئے تو جیل کے سیکورٹی گارڈ ، وہاں موجود چیزوں پر لکھی عبارتیں ، ہر کچھ کسی بعد بدلتی جیلیں اور بیرکیں ، اور نئے نئے قد کے ساتھی۔
ان کے حوالے سے خاص بات یہ تھی کہ عبرانی زبان نہ سیکھی بلکہ زبان کی آڑ میں ان کے سماج ، بودو باش ، خیالات ، سوچنے کے انداز اور طریقے ، ترجیحات اور خدشات سب کا بنظر غائر مطالعہ کیا۔ جیل میں عبرانی اخبارات اور لٹریچر کا بہت زیادہ گہرا مطالعہ کرتے رہے۔ جس سے انھیں اسرائیل کی نفسیاتی اپچ ، داخلی وضع ، عسکری اپروچ اور ان کے اسالیب کا نباض بنا دیا۔ جس نے بعد ازاں حماس کی سیاسی اور عسکری پالیسیز طے کروانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
اس حوالے سے وہ حماس کی قیادت میں سب سے ممتاز اور نمایاں تھے۔
جیل ہی میں انھوں نے ایک ناول ( الشوك و القرنفل ) لکھ کر دنیا تک فـلـسـطـــیـنــی مزاحمت کی داستان پہنچانے کی کوشش کی۔
شہادت کے بعد طویل قید میں ساتھ رہنے والے کئی ساتھیوں نے ( جن کا تعلق ہ مختلف طبقہ ہائے فکر سے ہے ) الشرق الاوسط کو اپنی جیل کی یادداشتیں اور ان کی شخصیت کے متعلق تاثرات ریکارڈ کروائے ہیں ۔ جن میں ان کی شخصیت کی دو نمایا ں خوبیوں کا تذکرہ تقریبا ہر ایک نے کہا ہے :
اول : انتہائی عوامی ، بے تکلف ، پر مزاح اور آسان و متواضع آدمی
دوم : ڈسپلن اور اصولوں پر شدید سخت ، بے لچک ، اور فوجی مزاج خصوصا فورسز کے احتساب کے ضمن میں۔ ۔
ایک ساتھی نے کہا یہ دو خوبیاں ان میں الگ الگ مگر ساتھ ساتھ اس طرح چلتی تھیں کہ بسا اوقات ہوں لگتا کہ ان میں دو صفات کی حامل دو الگ الگ شخصیات بستی ہیں۔
2011 میں ان کی رہائی اس وقت عمل میں آئی جب اسرائیلی جاسوس شالیت کی حـمـاس کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد دشمن نہ صرف حـمـاس کی قیادت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے مجبور ہوا بلکہ تبادلے کے طور پر قابض قوتوں کی جیلوں میں موجود ایک ہزار سے زائد فلسطینیوں کی رہائی عمل میں آئی۔ جن میں سے ایک ابو ابراہیم بھی تھے۔
یاد رہے کہ جب شالیت کو پکڑا گیا تو اس قید کے دوران جو لوگ اس کی نگرانی پر مامور تھے ان کی کمان ابو ابراہیم کے بھائی محمد السنوار کر رہے تھے۔
بعد ازاں قابض قوتوں کے ساتھ فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی فائل تیار کرنے اور شرائط منوانے میں بھی ان کا اہم۔کردار رہا۔
جیل سے رہائی کے فورا بعد حـمـاس کے اندر ہونے والے انتخابات میں شہید قائد نے بھی حصہ لیا اور سیاسی ونگ کے ممبر منتخب ہو گئے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ عسکری ونگ " قـسـام بریگیڈ " کی کمانڈ بھی کرتے رہے۔
اگر دنیا والوں کی یاد داشت اچھی ہے تو انھیں یاد ہو گا کہ سات اکتوبر کے طوفان کے بعد فـلـسـطـیـن کی بابت دنیا بھر کے عوام کی رائے عامہ جس تیزی سے تبدیل ہوئی ہے ۔ وہ کسی معجزے سے کم نہیں۔ مگر اسکے پیچھے ابو ابراہیم کی بصیرت ، عالمی قزاقوں کی نبض شناسی اور بہترین عسکری اور قائدانہ صلاحیتیں کار فرما تھیں۔
اس طوفان کے بعد سے قابض قوتیں اور ان کے عالمی پشت پناہ بار بار انھیں کا نام لے کر انھیں اس پوری صورت حال کا ذمہ دار ٹھہرا رہے تھے۔
یہ دشمن کو مطلوب افراد میں سے عرصے سے سر فہرست تھے ۔ دشمن کے شاطر مگر چھوٹے دماغ میں یہ خیال سمانا ہی بڑا مشکل ہے کہ ابو ابراہیم کی زندگی جس نظریے سے عبارت ہے اسکا جسم کے مرنے اور جینے سے کوئی تعلق نہیں۔ ۔بلکہ وہ تو ارواح کے ساتھ وابستہ زندگی ہے اور کوچ کرنے والی روح گویا ایک بیج سے اگنے والا ایسا درخت ہے جو بے شمار پھل لاتا اور نئے بیج پیدا کرتا چلا جاتا ہے۔
اس شہادت نے بھی ابو ابراہیم کی اسرار بھری زندگی کے کچھ رازوں سے یوں پردہ سرکایا ہے کہ مقتل گاہ ایک روشن اور تابناک سٹیج کا منظر پیش کرنے لگ گیا ہے۔ جس پر چلتے مناظر کبھی حال کی تصویر کشی کرتے ہیں کبھی ماضی کی ریل چلنے لگتی ہے اور کبھی مستقبل کے خدو خال واضح ہونے لگتے ہیں۔
ان کے ایک ساتھی نے اس شہادت پر اس سٹیج پر پل پل بدلتے مناظر کے پس منظر میں اپنی آواز میں یہ مکالمہ ریکارڈ کروایا ہے :
قابض فوج کا سب سے بہادر سب سے نڈر سب سے زیادہ جنگی مہارت رکھنے والا کمانڈر بھی غــزـ ہ کی اس ہولناک جنگ میں کسی سرنگ میں چھپ کر بھی وہ قائدانہ کردار نہیں نبھا سکتا جو ابو ابراہیم نے گذشتہ ایک سال سے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اس صوفے پر اپنی جان اللہ کے سپرد کرنے تک ادا کر کے گیے ہیں۔ ۔تمام تر بے سرو سامانی ، جنگ کی تباہ کاریوں ، نسل کشی ، قحط ، عالمی سیاسی و عسکری تنہائی کے اعصاب شکن مراحل اور چیلنجز سے کس قدر چابکدستی سے نبھائے کہ سرنگ میں بیٹھ کر صورت حال کو کمانڈ کرنے کی بجائے اگلی صفوں میں دشمن سے دو دو ہاتھ کر کے ہلکے پھلکے اعصاب کے ساتھ روانہ ہو گیا۔ ۔۔۔پھولوں جیسا ہلکا اور معطر۔
دنیا کو یہ لگا ہو گا کہ ابو ابراہیم نے یہ جنگ چار یا پانچ ہفتوں یا مہینوں کو ذہن میں رکھ کر چھیڑی تھی۔ اور اب تھک کر چور چور ہو چکے ہوں گے۔ نہیں بخدا ! وہ سب سے پہلے اس شے کے لیے تیار ہوئے تھے کہ ہمیں یہ جنگ سالوں تک لڑنا ہے۔ وہ اپنی اعصابی اور ذہنی تیاری کا مرحلہ جسمانی تیاری سے بہت پہلے طے کر چکے تھے۔ ۔
اس لیے قابض قوتوں کے ساتھ صرف ایک شرط پر جنگ بندی کے لیے تیار تھے کہ ہم تمھارے سب قیدی چھوڑتے ہیں تم آہنی جیلیں سب فلسطینیوں سے خالی کر دو۔
اور اگر نہیں تو پھر آو اہنے اعصاب ہی ہمارے ساتھ آزما کر دیکھ لو۔
لو دیکھ لو !
میں نہ ٹوٹا نہ بکھرا ، نہ دل شکستہ ہوا۔
بلکہ سرخرو ہو کر اس حقیر دنیا سے بہت اوپر اٹھ گیا ہوں اس حال میں کہ میرے رب نے میری تمنا اور آرزو ایسے پوری کی جیسا کہ میں چاہتا تھا۔ ۔
اب تم اپنے اعصاب کی برداشت دیکھ لو۔
فزت و رب الكعبة