میں دیکھ رہا ہوں کہ میں جنت میں رسول اکرمﷺ کے سامنے کھڑا ہوں

قابض اسرائیلی فوج نے گزشتہ روز دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے غزہ کے علاقے رفح میں ایک عمارت کو نشانہ بنایا جس میں حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار بھی موجود تھے۔
 بیروت سے جاری ایک بیان میں حماس کے نائب سربراہ خلیل الحیہ نے تصدیق کی ہے کہ یحییٰ سنوار اسرائیلی فورسز کے ساتھ لڑتے ہوئے جام شہادت نوش فرما گئے ہیں۔القسام بریگیڈ نے بھی تحریک کے سربراہ یحییٰ سنوار کی شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ ہمارے قائد شہدا کے قافلے میں شامل ہوگئے، انہوں نے اللہ کی خاطر فلسطین کی آزادی کی راہ پر جان قربان کیا، یحییٰ سنوار(ابو ابراہیم) اپنے مجاہدین بھائیوں کے ہمراہ غاصبوں سے لڑتے ہوئے ایک ہیرو کی طرح شہید ہوئے۔
ترجمان القسام نے مزید کہا کہ ابو ابراہیم نے اپنی جوانی قیدی کے طور پر قربان کی اور 20 سال سے زائد عرصے تک اسرائیلی جیلوںمیں قید رہے، رہائی کے بعد مزاحمت کا راستہ جاری رکھا، عسکری امور کی نگرانی کی اور مزاحمتی محاذوں کو متحد کرنے کے عمل میں اہم کردار ادا کیا۔ 

ترجمان نےغاصب اسرائیلوں اور اس کے معاونین کو پیغام دیا کہ جہاد و مزاحمت کا یہ راستہ اس وقت تک نہیں رکے گا جب تک فلسطین آزاد اور اس سے آخری صہیونی کو نکال باہر نہ کردیں۔

یحییٰ سنوار چوتھے حماس سربراہ تھے کہ جسے اسرائیلی غاصبوں نے نشانہ بنایا اس سے پہلے ان کے تین پیش رووں کو بھی قابض فوج نے نشانہ بنایا تھا ۔جس میں حماس کے بانی شیخ احمد یاسین جس کو مارچ 2004 ء میں غزہ میں ایک حملے شہید کردیا گیا تھا۔جبکہ اس کے ایک ماہ بعد اپریل میں اس کے جانشین عبدالعزیز الرنتیسی بھی اسرائیلی میزائل حملے میں شہید کردئے گئے تھے۔2004 سے 2017 تک حماس کی قیادت کرنے والے خالد مشعل حیات ہیں اور قطر میں مقیم ہیں۔خالد مشغل کے بعد اسماعیل ہنیہ حماس سربراہ منتخب ہوئے جسے31 جولائی کو اسرائیل نے ایران میں اُن کی قیام گاہ پر حملہ کرکے شہید کردیا تھا۔ان کی شہادت کے بعد حماس کی قیادت یحییٰ سنوار کے ہاتھوں میں آگئی تھی اور 16 اکتوبر کو وہ بھی اسرائیلی فوج سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے۔
یحییٰ ایک جری اور بہادر رہنما تھے ۔مزاحمت پر یقین رکھتے تھے ۔امریکہ نے 2015ء میں اس کو بلیک لسٹ میں شامل کردیا تھا۔سنوار کو سات اکتوبر کا ماسٹر مائند بھی سمجھاجاتا ہے ۔انہیں عبرانی زبان پر عبور حاصل تھا وہ ایک لکھا ری بھی تھے 2004میں، جیل میں قید تنہائی کے لمحات کاٹنے کیلئے لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ایک ناول "الشوک والقرنفل" ( کانٹے اور پھول ) کے نام سے لکھا۔جس میں وہ اماں کو مخاطب کرکے لکھتے ہیں:
’’اماں جان! میں دیکھ کہ وہ لمحہ آچکا ہے کہ میں ان یھودیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کرتا ہوں اور پھر شھید ہوجاتا ہوں۔ اور میں دیکھ رہا ہوں کہ میں جنت میں رسول اکرمﷺ کے سامنے کھڑا ہوں اور نبی کریمﷺ فرما رہے ہیں: مرحبا بک مرحبا بک ۔خوش آمدید خوش آمدید۔‘‘
 

متعلقہ عنوانات