یہی معمہ مرے پیش و پس پڑا ہوا ہے
یہی معمہ مرے پیش و پس پڑا ہوا ہے
مرا بدن ہے کہ مٹی میں خس پڑا ہوا ہے
میں ایک نقش بناتا ہوں اک نگلتا ہوں
مرا ہنر پس حرص و ہوس پڑا ہوا ہے
کوئی بھی پیڑ جو دیکھوں تو ایسا لگتا ہے
پرندگی کے لئے اک قفس پڑا ہوا ہے
خدائے ارض اسے اب تو شکل دے کوئی
مرا وجود تہ خاک و خس پڑا ہوا ہے
جو ہو سکے تو انہیں بھی اٹھا کے لے جانا
ہماری میز پہ ایک اک برس پڑا ہوا ہے
ہوا کی سازشیں اپنی جگہ مگر فاخرؔ
شجر کی شاخوں میں اب کے بھی رس پڑا ہوا ہے