یہی موقع ہے زمانے سے گزر جانے کا

یہی موقع ہے زمانے سے گزر جانے کا
کیوں اجل کیا کیا ساماں مرے مر جانے کا


کیا کہوں نزع میں میں اپنی خموشی کا سبب
رنج ہے وقت کے بے کار گزر جانے کا


حسب معمول چڑھایا نہیں ناصح کوئی جام
یہ سبب بھی ہے مرے منہ کے اتر جانے کا


تجھ سے رخصت ہے مری جلد بس اے پیر مغاں
منتظر ہوں فقط اس جام کے بھر جانے کا


موتیوں کا تھا خزانہ مری چشم تر میں
غم ہے دل کو انہیں دانوں کے بکھر جانے کا


لے چلی موت بصد شوق ہمیں ساتھ اپنے
نہ ہوا جب کوئی ساماں ترے گھر جانے کا


تار ہوں آنسوؤں کے آہ کے ہرکارے ہوں
سلسلہ کوئی تو ان تک ہو خبر جانے کا


ناامیدی ہمیں پہنچاتی ہے پستی کی طرف
یہی زینہ تو ہے کوٹھے سے اتر جانے کا


دن بہ دن پاؤں کی طاقت میں کمی ہونے لگی
شادؔ ساماں کرو اس دشت سے گھر جانے کا