یہاں دلدار بیگم دفن ہے

ایک انجانا سا ڈر
جب وہ پیدا ہوئی تھی
اس کے اندر جذب تھا


ایک اندھیری کوٹھری کا خوف
رگ رگ میں بسا تھا
ایک اونچائی سے گر جانے کی دہشت
پیچھے پیچھے چل رہی تھی
ایک دروازے کے پیچھے جا کے چھپ جانے کا شوق
زندگی کی سب سے پہلی آرزو تھی
کھڑکیوں کی اوٹ سے گلیوں کا منظر دیکھنا
زندگی کی سب سے پہلی جستجو تھی


جب ذرا سا وقت گزرا
عقل کے تاروں کی جنبش سے بدن جاگا
حفاظت کا تصور اس قدر وحشت زدہ تھا
کہ اپنے جسم سے شرمندگی ہوتی رہی


پھر خریداروں کی دنیا میں ذرا سن گن ہوئی
دل دھڑکنے کی صدا معدوم ہو کر رہ گئی
خوف کے گہنے سجا کر
اور جھجک کے بے تحاشا پھول پہنا کر
خریداروں نے اس کو پھر سے اندھی کوٹھری میں قید کر ڈالا
وہ جس کا خوف وہ بچپن سے سہتی آ رہی تھی


پھر ذرا سا ہوش آیا
دور نو عمری گیا تو آنکھ سے پردہ ہٹا
منظر نظر آنے لگے
پاؤں چوکھٹ کی طرف بڑھنے لگے
اک قدم رکھا ہی تھا کہ ننھے ننھے ہاتھ اک زنجیر بن کر آ گئے


اب وہ اس رستے میں ہے سب جس کو راہ مرگ کہتے ہیں
منجمد آنکھوں میں اب منظر ٹھہرتے ہی نہیں
اب کسی چوکھٹ کی جانب پاؤں بڑھتے ہی نہیں
ننھے ننھے ہاتھ کچھ اس طرح اونچے ہو گئے
اب دسترس سے دور ہیں
اپنی زنجیروں میں خود محصور ہیں


اس کی اندھی کوٹھری پر ایک کتبہ نسب ہے


''اس جگہ دلدار بیگم دفن ہے
وہ عفیفہ پارسا صابر و شاکر سو رہی ہے
یہاں سے غیر مردوں کا گزرنا منع ہے
برائے فاتحہ جو آنا چاہے آئے
لیکن دور سے پڑھ لے''