یگانہ کیا!

غالبؔ شکن ہزار ہیں صرف اک یگانہ کیا
اس کا مگر بگاڑ سکا ہے زمانہ کیا


جو نان میٹرک تھے وہ افسر بنے یہاں
اب جو پی ایچ ڈی ہیں وہ بیچیں کرانا کیا


مجھ سے یہ پوچھتی ہے مرے دل کی مالکن
تم پر مرے حقوق نہیں مالکانہ کیا


میرا کلام سن کے اک استاد نے کہا
بیٹے غزل یہ تو نے کہی والدانہ کیا!


با ذوق سامعین تو گھر جا کے سو چکے
میری غزل سنے گا فقط شامیانہ کیا!


اپیا جو اب کے قومی الیکشن میں ہیں کھڑی
مردوں کی رہنمائی کرے گا زمانہ کیا!


کہتے ہیں آب و دانہ مجھے لایا ہے یہاں
یاں آب بھی نہیں ہے کراچی میں دانہ کیا!


خط میں مشاعرے کے جہاں اور باتیں ہیں
یہ کیوں نہیں لکھا ہے مرا محنتانہ کیا!