یادوں کے باغ سے وہ ہرا پن نہیں گیا
یادوں کے باغ سے وہ ہرا پن نہیں گیا
ساون کے دن چلے گئے ساون نہیں گیا
ٹھہرا تھا اتفاق سے وہ دل میں ایک بار
پھر چھوڑ کر کبھی یہ نشیمن نہیں گیا
ہر گل میں دیکھتا رخ لیلیٰ وہ آنکھ سے
افسوس قیس دشت سے گلشن نہیں گیا
رکھا نہیں مصور فطرت نے مو قلم
شہ پارہ بن رہا ہے ابھی بن نہیں گیا
میں نے خوشی سے کی ہے یہ تنہائی اختیار
مجھ پر لگا کے وہ کوئی قدغن نہیں گیا
تھا وعدہ شام کا مگر آئے وہ رات کو
میں بھی کواڑ کھولنے فوراً نہیں گیا
دشمن کو میں نے پیار سے راضی کیا شعورؔ
اس کے مقابلے کے لئے تن نہیں گیا