یادوں کا کوئی دیپ جلائے تو بات ہے
یادوں کا کوئی دیپ جلائے تو بات ہے
وہ چاندنی ہے پاس بلائے تو بات ہے
آ کر کسی بھی باغ میں مل جائے خیر ہے
گوری اگر نہ گھر پہ بلائے تو بات ہے
پھر ذکر چاہتوں کا سماعت کا حسن ہو
پھر داستان وصل سنائے تو بات ہے
ہے وقت مہرباں تو کرے شاد کام دل
یہ دوریوں کے زخم بھلائے تو بات ہے
رت ہے ملن کی اس کے بھی رستے میں آئے ہیں
تازہ گلاب ہاتھ پہ لائے تو بات ہے
عاشقؔ ہے عاشقی کی ضروری ہے گر اسے
اس عاشقی میں خود کو گنوائے تو بات ہے