یاد کرو جب رات ہوئی تھی

یاد کرو جب رات ہوئی تھی
تم سے کوئی بات ہوئی تھی


کہہ سکتا تھا کون کسی سے
وہ شکل حالات ہوئی تھی


سب سے ناطہ توڑ کے یکجا
تیری میری ذات ہوئی تھی


انسانوں نے حق مانگا تھا
اور فقط خیرات ہوئی تھی


اس کی کم آمیزی سے میری
تہذیب جذبات ہوئی تھی


مرنے والا خود روٹھا تھا
یا ناراض حیات ہوئی تھی


اسے ذرا سا خط لکھنے پر
خرچ تمام دوات ہوئی تھی


آج شعورؔ صبا کی آمد
کتنی بڑی سوغات ہوئی تھی