یاد ہے

کھیلتا تھا جب لڑکپن سے ترا رنگیں شباب
ہٹ رہی تھی ماہ عالم تاب کے رخ سے نقاب
زندگی تھی حسن نو آغاز کا رنگین خواب
یاد ہے وہ نوجوانی کا زمانہ یاد ہے


جب کہ ساز زندگی نغمات سے معمور تھا
ذرہ ذرہ میرے دل کی خاک کا جب طور تھا
میں اکیلا ہی نہیں سارا جہاں مسرور تھا
یاد ہے وہ نوجوانی کا زمانہ یاد ہے


کھیلتی تھی نوجوانی جب کہ بانہوں میں تری
زندگی کی بارشیں تھیں جلوہ گاہوں میں تری
رقص کرتی تھیں تمنائیں نگاہوں میں تری
یاد ہے وہ نوجوانی کا زمانہ یاد ہے


ہر ادائے حسن پر ہوتا تھا دل جب بے قرار
جب رہا کرتا ملاقاتوں کا باہم انتظار
جب طبیعت تجھ سے ملنا چاہتی تھی بار بار
یاد ہے وہ نوجوانی کا زمانہ یاد ہے


رات بھر سونے نہ دیتی تھی مسرت عید کی
جبکہ رہتی تھی دلوں میں بے قراری دید کی
ماہتاب عید بن جاتی کرن خورشید کی
یاد ہے وہ نوجوانی کا زمانہ یاد ہے


رات آتی تھی سنانے سوز کا پیغام جب
مشق تحریر جنوں بنتا تھا تیرا نام جب
تھا نہ کچھ پیش نظر اس عشق کا انجام جب
یاد ہے وہ نوجوانی کا زمانہ یاد ہے