یاد علی گڑھ
وہ چائے کی پیالی پہ یاروں کے جلسے
وہ سردی کی راتیں وہ زلفوں کے قصے
کبھی تذکرے حسن شعلہ رخاں کے
محبت ہوئی تھی کسی کو کسی سے
ہر اک دل وہاں تھا نظر کا نشانہ
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ
بہت اپنا انداز تھا لاابالی
کبھی تھے جلالی کبھی تھے جمالی
کبھی بات میں بات یوں ہی نکالی
سر راہ کوئی قیامت اٹھا لی
کسی کو لڑانا کسی کو بچانا
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ
کبھی سچی باتوں کو جھوٹا بتایا
کبھی جھوٹی باتوں کو سچ کر دکھایا
کبھی راز دل کہہ کے اس کو چھپایا
کبھی دوستوں میں یوں ہی کچھ اڑایا
بتا کر چھپانا چھپا کر بتانا
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ
کبھی بزم احباب میں شعلہ افشاں
کبھی یونین میں تھے شمشیر براں
کبھی بزم واعظ میں تھے پا بہ جولاں
بدلتے تھے ہر روز تقدیر دوراں
جہاں جیسی ڈفلی وہاں ویسا گانا
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ
زمانہ تھا وہ ایک حیوانیت کا
وہ دور ملامت تھا شیطانیت کا
ہمیں درد تھا ایک انسانیت کا
اٹھائے علم ہم تھے حقانیت کا
بڑھے جا رہے تھے مگر باغیانہ
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ
مقابل میں آئے جسارت تھی کس کو
کوئی روک دے بڑھ کے ہمت تھی کس کو
پکارے کوئی ہم کو طاقت تھی کس کو
کہ ہر بوالہوس کو تھے ہم تازیانہ
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ
خیالات پر شوق کا سلسلہ تھا
بدل دیں زمانے کو وہ حوصلہ تھا
ہر اک دل میں پیدا نیا ولولہ تھا
ہر اک گام احباب کا قافلہ تھا
ادھر دعویٰ کرنا ادھر کر دکھانا
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ
وہ شہہ راہ میرس کے پر پیچ چکر
وہ شمشاد بلڈنگ پہ اک شور محشر
وہ مبہم سی باتیں وہ پوشیدہ نشتر
وہ بے فکر دنیا وہ لفظوں کے دفتر
کہ جن کا سرا تھا نہ کوئی ٹھکانہ
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ
کسی کو ہوئی تھی کسی سے محبت
کوئی کر رہا تھا کسی کی شکایت
غرض روز ڈھاتی تھی تازہ قیامت
کسی کی شباہت کسی کی ملامت
کسی کی تسلی کسی کا ستانا
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ
کوئی غم زدہ تھا کوئی ہنس رہا تھا
کوئی حسن ناہید پر مر مٹا تھا
کوئی چشم نرگس کا بیمار سا تھا
کوئی بس یوں ہی تاکتا جھانکتا تھا
کبھی چوٹ کھانا کبھی مسکرانا
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ
وہ ہر جنوری میں نمائش کے چرچے
وہ پر شوق آنکھیں وہ حیران جلوے
وہ چکر پہ چکر تھے بارہ دری کے
وہ حسرت کہ سو بار مل کر بھی ملتے
ہزاروں بہانوں کا وہ اک بہانا
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ
وہ رخ آفتابی پہ ابرو ہلالی
وہ تمثال سیمیں وہ حسن مثالی
شگوفوں میں کھیلی گلابوں میں پالی
وہ خود اک ادا تھی ادا بھی نرالی
نگاہیں بچا کر نگاہیں ملا کر
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ
وہ ہرچند مجھ کو نہیں جانتی تھی
مگر میری نظروں کو پہچانتی تھی
اگرچہ مرے دل میں وہ بس گئی تھی
مگر بات بس دل کی دل میں رہی تھی
مگر آج احباب سے کیا چھپانا
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ
وہ اک شام برسات کی دن ڈھلا تھا
ابھی رات آئی نہ تھی جھٹپٹا تھا
وہ باد بہاری سے اک گل کھلا تھا
دھڑکتے ہوئے دل سے اک دل ملا تھا
نظر سن رہی تھی نظر کا فسانہ
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ
جوانی اداؤں میں بل کھا رہی تھی
کہانی نگاہوں میں لہرا رہی تھی
محبت محبت کو سمجھا رہی تھی
وہ چشم تمنا جھکی جا رہی تھی
قیامت سے پہلے قیامت وہ ڈھانا
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ
ہمیں بیتی باتیں جو یاد آ رہی تھیں
وہ مخمور نظریں جو شرما رہی تھیں
بہت عقل سادہ کو بہکا رہی تھیں
بڑی بے نیازی سے فرما رہی تھیں
انہیں یاد رکھنا ہمیں بھول جانا
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ
اب وہ امنگیں نہ دل میں مرادیں
اب رہ گئیں چند ماضی کی یادیں
یہ جی چاہتا ہے انہیں بھی بھلا دیں
غم زندگی کو کہاں تک دعا دیں
حقیقت بھی اب بن گئی ہے فسانہ
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ
علی گڑھ ہے بڑھ کر ہمیں کل جہاں سے
ہمیں عشق ہے اپنی اردو زباں سے
ہمیں پیار ہے اپنے نام و نشاں سے
یہاں آ گئے ہم نہ جانے کہاں سے
قسم دے کے ہم کو کسی کا بلانا
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ
محبت سے یکسر ہے انجان دنیا
یہ ویران بستی پریشان دنیا
کمال خرد سے یہ حیران دنیا
خود اپنے کیے پر پشیمان دنیا
کہاں لے کے آیا ہمیں آب و دانہ
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ