سال دو ہزار اکیس سیاسی رہنمائی کی ناکامی کا سال کیوں؟
دو ہزار اکیس نے ہمیں ( اس سرد جنگ کے دور کی) یاد دہانی کرواتے ہوئے بتایا ہے کہ اخلاقی نتائج کو نظر انداز کرتے ہوئے، صرف نظریات کے بل بوتے پر حکمرانی ایک مہلک اور خطرناک جال ہے۔
دو ہزار اکیس نے ہمیں ( اس سرد جنگ کے دور کی) یاد دہانی کرواتے ہوئے بتایا ہے کہ اخلاقی نتائج کو نظر انداز کرتے ہوئے، صرف نظریات کے بل بوتے پر حکمرانی ایک مہلک اور خطرناک جال ہے۔
سب نابغے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ وہ علوم جو اس آکسفورڈ یونی ورسٹی نے ابھی پڑھانے تھے، ان میں سے چھبیس جدید ترین علوم تاج محل کے مقامی ماہرینِ فن نے اس قدر مہارت سے استعمال کیے تھے کہ آکسفورڈ اور تاج محل بننے کے دو سو سال بعد بھی برطانوی ماہرینِ تعمیرات اس عمارت کو دیکھ کر انگشت بدنداں تھے، اور اپنے ملک کے عوام کے لیے اہل ہند کے اس جدید فنِ تعمیر پر کتابیں لکھ رہے تھے۔
یہ ہیں وہ کمزوریاں اور طاقتیں جن کے تحت روسی و یورپی ممالک اک دوجے کے لیے خارجہ پالیسی تشکیل دیتی ہیں۔ ہر ملک کو اپنا مفاد عزیز ہے۔ لیکن یہاں تماشا یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنا مفاد بھی حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن اپنی کمزوری بھی عیاں نہیں ہونے دینا چاہتا۔ کیونکہ اس سے اس کی خارجہ پالیسی کی خود مختاری متاثر ہوتی ہے۔
سب اپنے من چاہے مفادات یوکرائن سے وصول کرنا چاہ رہے ہیں۔ لیکن عدم استحکام عام عوام کی زندگیوں میں کیا زہر گھول رہا ہے اس کے بارے میں سوچنے کے لیے کوئی بھی تیارنہیں۔
بابل ، دنیا کا قدیم ترین شہر ہے جو ہزار ہا برس سے تہذیبوں کا نگار خانہ ہے ، مگر وقت کی گرد اسے مکمل طور پر ڈھانپ کر دھندلا چکی ہے ۔ یہی وہ شہر ہے جہاں آج سے تقریبا اڑتیس سو سال قبل سمیری بادشاہ حمورابی نے انسان کا بنایا ہوا تاریخِ انسانی کا سب سے پہلا قانونی و آئینی ضابطہ اخلاق مرتب کیا۔ اس نے یہ قوانین پتھر کے کتبوں پر نقش کروائے ۔ جب کہ سب سے پہلے تحریری صورت میں قوانین مرتب کرنے والا شخص بر صغیر کی اموریہ سلطنت کا کوتلیہ چانکیہ ہے، جو چندر گپت موریہ کا وزیر اعظم تھا۔
اپنی کتاب 1984 میں جارج آرویل کہتے ہیں: "وہ جو ماضی کو کنٹرول کرتا ہے،وہ مستقبل کو کنٹرول کرتا ہے۔ اور جو حال کو کنٹرول کرتا ہے وہ ماضی کو کنٹرول کرتا ہے۔"
موجودہ افغان معیشت منشیات فروشی میں دھنسی ہوئی ہے۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ افغانیوں کو کوئی متبادل دیا جائے کہ وہ پوست کی کاشت چھوڑ کر اپنی زمینوں کو کسی حیات بخش فصل کے لیے کھود سکیں۔ اس کے لیے دنیا کو موجودہ افغان حکومت کو حقیقت سمجھتے ہوئے ان کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوں گے۔ یہی افغانیوں اور انسانیت کے حق میں بہتر معلوم ہوتا ہے۔ ورنہ یہ تو آپ اور ہم جانتے ہی ہیں، آپ ظلم کو کیسا بھی روپ دیں ، کوئی بھی شکل بنا کر پیش کر لیں، امن آئے گا اور نہ بہتری کی کوئی صورت ہی برآمد ہوگی۔
رفتہ رفتہ تائیوان کے سلسلے میں دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان حالات کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ عالمی منظر نامے پر نظر رکھنے والے بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ و چین کا تنازع اگر شکل جنگ کی شکل اختیار کر گیا تو اس کا مرکز یہی تائیوان کا مسئلہ ہوگا۔ چین رفتہ رفتہ اپنی عسکری قوت بڑھاتا، تائیوان کو مین لینڈ کے اندر شامل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ وقتاًفوقتاً تائیوانی حکومت پر مختلف طریقوں سے دباؤ بھی بڑھاتا جا رہا ہے۔ کبھی اس کے مسلح جہاز تائیوانی جزیرے کے اوپر سے گزرتے ہیں، تو کبھی تائیوان کو
اگر چین تائیوان کو کنٹرول کرتا ہے، تو ان کے پاس تائیوان کی گہرے پانی کی بندرگاہوں سے بحر الکاہل میں نکلنا بہت آسان ہوگا۔ وہ جاپان کے لیے ایک نیا خطرہ بن سکتے ہیں – جو اپنی توانائی اور دیگر خام مال کے لیے مکمل طور پر مشرقی ایشیا کے سمندری راستوں پر انحصار کرتا ہے۔ چینی فورسز امریکی ساتویں بحری بیڑے، ہوائی اور یہاں تک کہ ریاستہائے متحدہ کے لیے بھی خطرہ بن سکتیں ہیں۔ کیوں کہ جزیرہ تائیوان سے چین امریکی ریاستوں اور اس کے دیگر سٹریٹجک پوائینٹس کو بڑی آسانی سے نشانے پر لے پائے گا۔ عالمی ماہرین مت
گوانتنامو کے علاوہ، احمد اور احسن نے امریکی شہری قانونی نظام کے سنہری معیار کا تجربہ بھی کیا۔ دونوں کو تشدد کر کے اور عمر بھر قید با مشقت کی دھمکیاں دے کر جرم قبول کروایا گیا۔ دو سال کی اعصاب شکن مکمل تنہائی اور تشدد پر مبنی سزا کاٹنے کے بعد ٹرائیل کے دوران جج نے فیصلہ دیا کہ ان پر لگے الزامات کا کوئی ثبوت نہیں اور ان کا اس جرم سے کوئی تعلق نہیں جس کے تحت ان کو سزا دلوانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔