ذہنی امراض اور آج کا نوجوان: آج کے نوجوان کو ذہنی امراض سے کیسے بچائیں؟
آج کے دور کا نوجوان کن مسائل کا شکار ہے؟؟؟ کیا نفسیاتی و ذہنی مسائل کا مطلب پاگل پن ہی ہوتا ہے۔۔۔؟ نوجوان اپنے ذہنی مسائل کا حل کیسے نکالیں ۔۔۔اور ان کی ذہنی صحت کا خیال کون رکھے ۔۔۔؟ ذہنی صحت کے عالمی دن پر خصوصی تحریر
دنیا بھر میں 10 اکتوبر کو مینٹل ہیلتھ یعنی دماغی و ذہنی صحت کا عالمی دن منایا جاتاہے۔ 10 اکتوبر صبح جا کر ای میل کھولی تو ان باکس میں اس دن کے حوالے سے بھرا پڑا تھا۔ یوں لگتا تھا یونیورسٹی کے ہر شعبے نے دماغی امراض کی آگاہی کے لئے کوئی نہ کوئی پروگرام ترتیب دے رکھا ہے۔کہیں یار دوستوں سے سروے فارم بھی ساتھ دئے ہوئے تھے کہ اگر کسی ایک سوال کا جواب بھی ہاں میں ہو تو آپ خطرے میں ہیں فوراً ہم سے رابطہ کریں۔ ایک سروے فارم میں نے بھی اوپن کیا تو انکشاف ہوا کہ میں صدیوں سے ڈپریشن کا شکار ہوں۔۔۔ اس سے پہلے کہ شایَد مزید کئی خطرناک مرض کا بھی انکشاف میں نے سروے فارم بند کر دیا۔کیا ذہنی مسائل کا مطلب پاگل پن ہونا ہے؟
پاکستان میں اس حوالے سے عموماً بات کم کی جاتی ہے کیوں کہ ذہنی صحت یا دماغی امراض کو ہم نے پاگل پن (مینٹل) سے جوڑ رکھا ہے۔ذرا سوچیے دنیا میں کونسا بندہ ایسا ہے جو خود کو پاگل کہلانا پسند کرے گا؟ لہذا لوگ اس ڈر سے اس پر بات کرنا پسند نہیں کرتے ہیں۔ پھر ہم نے ذہنی صحت و امراض کے ماہرین (ڈاکٹرز) کے نام بھی اسی طرح رکھے ہوئے ہیں۔۔۔ اب سائکاٹرسٹ کو پاگلوں کا ڈاکٹر کہا جائے گا؟ سائکاٹرسٹ کے پاس جانا لوگ پسند کریں گے لیکن پاگلوں کے ڈاکٹر کے پاس۔۔۔ کون جائے گا؟ اس مستزاد یہ کہ سائیکولوجسٹ (ماہر نفسیات) اور سائکاٹرسٹ (ماہر ذہنی و دماغی امراض) میں بھی فرق نہیں کیا جاتا۔۔۔ذہنی امراض بھی جسمانی امراض کی طرح ہی ہوتے ہیں
دوستو ! جس طرح ہمارے باقی جسم کو مختلف امراض لاحق ہوتے ہیں اسی طرح ہمارے دماغ کو بھی کوئی مرض لگ سکتا ہے ۔سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ دماغ کو لگنے والے مرض کا لازمی مطلب پاگل پن ہی نہیں ہوتا۔ یا دماغی مریض کو پاگل نہیں کہتے ہیں۔۔۔ لہذا آپ کے ارد گرد کوئی ایسا بندہ / بندی ہے تو خدارا اُسے پاگل یا عجیب و غریب القاب دے کر شرمندہ ہر گز نہ کریں اسے بھی باقی لوگوں کی طرح عام سمجھ لیں۔ ہاں جی ! جیسے باقی حصوں میں لگنے والے زخم یا مرض کی نوعیت کچھ اور ہو سکتی ہے لیکن دماغ چونکہ پورے جسم کو کنٹرول کرتا ہے لہذا اس میں کوئی مسئلہ ہو جائے تو پورا جسم متاثر ہوتا ہے لہذا یہ امراض بہت خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں انہیں ہلکا ہر گز نہ لیں ۔
آج کا نوجوان کن ذہنی و نفسیاتی مسائل کا شکار ہے؟
عالمی ادارہ برائے ذہنی امراض کے مطابق انسان کو لاحق ہونے والے زیادہ تر دماغی امراض 24 سال کی عمر سے شروع ہو جاتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دماغی امراض کا نشانہ بننے والے سب سے زیادہ لوگ دنیا بھر میں پائے جانے والے طلبہ پر نہ صرف اپنی پڑھائی کا بوجھ ہوتا ہے بلکہ وہ معاشی (نوکری ڈھونڈنا ) دباؤ اور سماجی دباؤ ( شادی وغیرہ ) کا بھی شکار ہوتے ہیں۔آج کے دور میں طالب علم کو ہر لمحہ ہمہ جہت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔مثال کے طور پر ایک زمانے میں صرف افلاطون اور آئین سٹائین جیسی ذہانت کے طلبہ 80 فی صدنمبر لیا کرتے تھے مگر ہمارے ناقص امتحانی نظام کے تحت ہزاروں طلبہ سو فیصد نمبر حاصل کررہے ہیں۔۔۔ اس سے طلبہ پر شروع سے ہی ایک پریشر بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال نے بھی انسان کو ایک طرح سے نہ صرف تنہا کر دیا ہے بلکہ نوجوانوں میں یہ بہت سارے مسائل کی بنیادی وجہ بھی بن رہا۔ افسوس یہ ہے کہ مسائل جس رفتار سے بڑھ رہے اسی حساب سے انہیں حل کرنے کے لئے وسائل مہیا نہیں ہیں۔ ہمارے تعلیمی ادارے پریشر ککر ہیں ۔استاد اور بالخصوص سپروائزر ہماری مدد کرنے سے زیادہ دیگر سرگرمیوں میں الجھائے رکھتے ہیں۔وہاں سے نکلیں تو ہمارے گھروں کا ماحول ایک اور دردِ سر ہے۔ اگر آپ کے والدین سمجھ دار ہیں تو آپ کے قریبی رشتہ دار کوئی نکل آئے گا جو آپ کو پریشان کرنے سے باز نہیں رہے گا۔ بے چارہ طالب علم کرے کیا؟ کسی نے محسوس کیا کہ حالیہ کچھ عرصے میں پاکستانی طلبہ میں خودکشی کرنے کے رحجان میں خطرناک اضافہ ہوا ہے؟ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ چلیں اگر حکومت کچھ نہیں کر رہی باقی ادارے کچھ نہٰں کر رہے تو آئیں ہم مل کر کچھ کرتے ہیں ۔ اور ہم کر سکتے ہیں۔
ذہنی صحت کا خیال کیسے رکھیں؟
1۔ سب سے پہلے تو یہ ٹرینڈ تبدیل کرنے کی کوشش کریں کہ دماغی امراض کوئی ممنوعہ چیز ہیں۔ یا یہ پاگل ہوتے ہیں یا ایسا کچھ بھی ۔ دماغ کو بھی مرض لگ سکتا ہے جیسے آپ باقی امراض کا علاج کرتے ہیں دماغی امراض کا علاج کروانے میں شرماہٹ کیوں پھر؟ اس پر بات کریں ۔ اس کے بارے میں بات کریں ۔ جیسے فیملی ڈاکٹر ہوتا ہے ایک فیمیلی سائکا ٹرسٹ کیوں نہیں۔2۔ یہ محسوس کرنا بہت آسان ہے کہ کوئی فرد کسی مسئلے میں الجھا ہوا ہے ۔ بس آپ کے پاس احساس کرنے والی حس ہونی چاہئے ۔ اپنے ارد گرد اپنے پیاروں پر نطر رکھیں ۔ کون کھانا وقت پر نہیں کھا رہا یا ٹھیک سے نہیں کھا پا رہا۔ کون بُجھا بُجھا سا ہے؟ کس کا طرزِعمل کچھ بدل سا رہا ہے کون گم سم سا ہے۔ یہ باتیں بہت آسانی سے محسوس کی جا سکتی ہے اور ایسا کچھ بھی ہے تو خطرے کی گھنٹی بج گئی آپ کا پیارا مشکل میں ہے اسے آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔
3۔برسٹل (برطانیہ) میں ایک پُل کے اوپر لکھا ہے۔ ذرا رکئے ہم سے بات کر کے دیکھیے شایَد ہم آپ کی مدد کر سکیں اور ساتھ نمبر دیا ہے۔معلوم ہوا کہ اگر آپ کا خودکشی کرنے کا ارادہ بن رہا پل سے چھلانگ لگانی ہے تو ہوسکتا ہے یہ پڑھ کر آپ ایک آخری کوشش کے طور پر کال کر ہی لیں ۔۔۔ اور زندگی بچ جائے۔ یہاں یونیورسٹی میں بھی جگہ جگہ یہاں تک کہ لفٹ میں بھی ایسے پوسٹرز لگائیں گئے ہیں کہ مدد کی درخواست کریں اور ساتھ میں 10، 15 نمبر دئے ہیں جہاں لوگ 24 گھنٹے مفت آپ کی مدد کے لے موجود ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ایسا نہیں ہو گا تو کیا ہم لوگوں کو مرنے کے لئے چھوڑ دیں۔ نہیں آپ کی زندگی بہت قیمتی ہے۔ کوئی آپ کے لئے کچھ نہیں کر رہا تو کیوں نہ آپ خود سے کچھ کر لیں؟ ڈپریشن مثال کے طور پر بہت معمولی علامات شے شروع ہو کر خوفناک خطرناک چیز بن جاتی ہے۔ جب آپ کو محسوس ہونے لگے کہ ڈپریشن کی ابتدا ہو رہی تو اپنے لئے مدد تلاش کریں ۔ گوگل نہ کریں ۔ سائکا ٹرسٹ کے پاس جائیں۔
4۔ کسی دوست سے کسی جاننے والے سے جس پر آپ بھرسہ کر سکیں مدد مانگیں۔آپ کے ارد گرد ایسے لوگ ہونے چاہئیں جو آپ کو خوش کریں جن سے مل کر زندگی کا احساس ہو جن سے مل کر جینے کا دل کرے۔ نا کہ وہ لوگ جو اچھے خاصے جیتے جاگتے بندے کو طعنے دے دے کر مار دیں ۔ ایسے لوگوں سے اتنا ہی دور رہیں جتنا بچے دوائوں سے دور رہتے ہیں ۔
زرا اپنا جائزہ لیں کیا چیزیں آپ کو خوش کرتی ہیں ۔ کن کاموں سے دل بہل جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ریسرچ اچھی نہیں چل رہی ۔ کام صحیح نہیں ہو رہا۔ چھوڑ دیں ۔ تھوڑا سا آرام کریں ۔ وہ کریں جس سے آپ کو خوشی ہو۔ بریک لیں گھومنے نکل جائیں ۔ کچھ ایسا کریں جو آپ کو راحت دیں ۔ فریش ہو کردوبارہ سے کوشش کریں ۔
5۔ایک دوسرے کی مدد کریں۔ اپنے ارد گرد لوگوں کو اکیلا نہ چھوڑیں۔ ایک دفعہ پھر دوستو! یہ بہت خطرناک ہے ۔اپنے ارد گرد لوگوں میں خوشیاں بانٹیں ۔ محبتیں بانٹیں ۔ جہاں کوئی اداس چہرہ دکھے مسکراہٹ بکھیرنے کی کوشش کریں ۔ آپ کسی کے راستے کے سارے کانٹے نہیں چن سکتے لیکن جتنا ممکن ہو وہ تو چن لیں نا۔ اپنے ارد گرد لوگوں کو محسوس کریں ۔ کیا وہ بدل رہے؟ کہیں مسائل میں الجھے ہیں ؟ اگر وہ مدد کے لئے نہیں بھی پکار رہے تو خود آگے بڑھ کر مدد کریں۔ ہو سکتا ہے کسی کا سپر وائزر اچھا نہ ہو اس کا بہت برا دن گزرا ہو۔ شام کو اگر وہ آپ کا روم میٹ ہے تو اسے تھوڑا سا ہنسا لیں ۔ یہ بہت بڑا احسان ہو گا۔
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
آئیں مل جل کر زندہ رہنے کی ایک خوشگوار ہنس مکھ اور مزے دار زندگی گزارنے کی ایک بھرپور کوشش کریں ۔ مایوسیاں ختم کریں امیدیں بانٹیں ۔ خدا ہمارا حامی و ناصر ہو ۔۔۔