ہیموفیلیا کا عالمی دن: دنیا میں تیزی سے پھیلتا ہوا مرض

آج دنیا بھر میں ہیموفیلیا کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ہیموفیلیا کو شاہی بیماری بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ یہ بیماری برطانوی، ہسپانوی اور روسی شاہی خاندانوں میں سب سے پہلے تشخیص کی گئی۔ ہیموفیلیا ایک ایسی طبی کیفیت ہے جس میں خون جمنے کا عمل کم ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے ذرا سی چوٹ چوٹ لگنے سے بہت سا خون بہتا ہے۔ ہیموفیلیا ایک موروثی مرض ہے یہ مرد سے اگلی نسل میں منتقل ہوتا ہے۔

دنیا بھر میں ہیموفیلیا سے متعلق آگہی کے لیے 17 اپریل کو ہیموفیلیا کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے جس دن ورلڈ فیڈریشن آف ہیموفیلیا کے بانی فرینک شنابل کی پیدائش ہوئی۔ امسال ہیموفیلیا کا عالمی دن اس نصب العین کے تحت منایا جارہا ہے کہ ہیموفیلیا سمیت خون کی موروثی امراض کے شکار افراد کو علاج معالجے کی بلاتفریق سہولت فراہم کی جائے۔ حکومتیں قومی صحت پالیسی میں خون کی موروثی بیماریوں سے متعلق واضح  پالیسی کو شامل کریں۔

کسی چوٹ یا زخم کی صورت میں خون پلازما میں شامل پلیٹ لیٹس اور پروٹین مل کر ایک لوتھڑا سا بناتے ہیں جو خون بہنے سے روکتا ہے۔ جسے ہم خون جمنا کہتے ہیں۔ یہ لوتھڑا زخم یا چوٹ ٹھیک ہونے سے خود بخود خون میں حل ہوجاتا ہے۔ ہیموفیلیا میں خون کی یہ صلاحیت متاثر ہوجاتی ہے اور خون جمنے میں کمی آجاتی ہے۔ اس کی عام علامات میں گہری چوٹ، مسوڑوں سے خون آنا۔ پاخانے میں خون، پیشاب میں خون آنا، باربار ناک سے خون بہنا، جوڑوں میں درد یا سوزش ہونا شامل ہیں۔

2020ء میں ورلڈ فیڈریشن آف ہیموفیلیا(ڈبلیو ایف ایچ) کے 120 ممالک میں کیے گئے عالمی سروے کے  مطابق دنیا میں تقریباً 209614فراد ہیموفیلیا کے شکار ہیں جبکہ پاکستان سے2459  کے قریب افراد رپورٹ کیے گئے۔ لیکن یہ تعداد حقیقی صورت حال سے نہایت کم ہے۔ ڈبلیو ایف ایچ کے مطابق دنیا بھر میں 75 فیصد افراد جو  ہیموفیلیا کا شکار ہیں ان اب تک تشخیص نہیں ہوئی ہے یا انھیں کوئی علاج مہیا نہی ہوا جبکہ پاکستان میں یہ شرح 90 فیصد تک ہے۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ہیموفیلیا کے علاج معالجہ کے لیے تسلی بخش اقدامات نہیں کیے جارہے ہیں۔ ہیموفیلیا جیسے خون بہنے والے امراض کے لیے تشخیصی سہولیات ابتدائی ہیں اور ملک میں صرف چند ہسپتالوں میں یہ سہولیات موجود ہیں۔ اس کا علاج بہت مہنگا ہونے کے ساتھ اصلی دوا جیسے مجنمد پلازما کا انجیکشن کی دستیابی بھی ایک چیلنج ہے۔ اس ناکافی علاج کے وجہ سے ہیموفیلیا کے شکار افراد میں جسمانی اور اعصابی معذوری پیدا ہوجاتی ہے۔

پاکستان ہیموفیلیا ویلفیئر سوسائٹی( ایچ پی ڈبلیو ایس) جیسی این جی اوز اپنی مدد آپ  اپنے محدود وسائل سے اس بیماری سے سے نبردآزما ہونے کے لیے کوشاں ہیں۔دسمبر 2020 میں پاکستان کا پہلا ہیموفیلیا سنٹر انڈس ہسپتال کراچی میں قائم کیا گیا۔ ہیموفیلیا سے مقابلہ کرنے کے لیے قومی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کارِ خیر میں این جی اوز ، سول سوسائٹی اور حکومت کو آگے آنا ہونا ہوگا۔ جیسا کہ آغاز میں بتایا گیا کہ پاکستان میں ہیموفیلیا کے شکار نوے فیصد افراد کی تشخیص یا علاج شروع نہیں کیا جاسکا۔ اس لیے سب سے پہلے نیشنل ہیموفیلیا رجسٹری تیار کرنا اور ان تمام مریضوں کو رجسٹر کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ دوسرا یہ کہ ہیمیوفیلیا کا علاج تک رسائی ممکن بنائی جائے اور اس کا مفت علاج کی سہولیات فراہم کرنی چاہیے۔

ہر صوبائی دارالحکومت میں ہیموفیلیا کی نگہداشت  اور علاج کا ایک فعال مرکز ضروری ہے جس میں تمام تشخیصی اور مشاورتی خدمات ایک ہی چھت تلے دستیاب ہوں۔مزید یہ کہ ہیموفیلیا کے مریضوں کی نفسیاتی مدد کی بھی ضرورت ہے۔ ان کو معاشرے میں نارمل زندگی گزارنے کے لیے حوصلہ اور نسفیاتی مدد دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ قومی صحت پالیسی میں ہیموفیلیا کی تشخیص، علاج، عوامی آگہی اور حفظ ماتقدم  کے اقدامات کو ترجیحات میں شامل کرے۔

متعلقہ عنوانات