کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے
کیا زمانے تھے جب حُسن کے معیارات اور عشق کے معاملات کے بیان کے لئے بھی شاعر کتاب کے استعارے کا سہارا لیتے تھے۔کبھی خوبصورت چہرے کو کتابی چہرہ کہہ دیا تو کبھی محبوب کو غزل کی کتاب سے تشبیہ دے دی ۔
یونہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر بھی رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتاب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو
کیا پر لطف بات تھی کہ کتابوں سے لگاؤ محض شاعر کا ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ محبوب بھی کتب بینی کا شوق رکھتا تھا۔ شاعر نے محبوب کی نگاہوں کو کتاب پر مرکوز دیکھا تو جھٹ سے کہہ دیا :
کبھی آنکھیں کتاب میں گم ہیں
کبھی گم ہے کتاب آنکھوں میں
محبوب کے رخ کو بھی کتاب کی طرح پڑھا جاتا تھا :
رہتا تھا سامنے تیرا چہرہ کھلا ہوا
پڑھتا تھا میں کتاب یہی ہر کلاس میں
قبلہ نظیر اکبر آبادی نے تو دل کو بھی کتاب ہی سے تشبیہ دے ڈالی:
سب کتابوں کے کھل گئے معنی
جب سے دیکھی نظیر دل کی کتاب
کئی قصے کتابوں سے شروع ہوتے تھے اور کئی کہانیاں کتابوں میں دفن ہو جاتی تھیں۔ کبھی کتابیں خوشبو میں بسے خطوط کی ترسیل کا ذریعہ ہوتی تھیں۔۔۔ تو کبھی بڑی محبت کے ساتھ کتابوں میں رکھے گئے پھولوں کی امین ہوتی تھیں۔۔۔ نجانے کتنے آنسو کتابوں کے پنے اپنے اندر جذب کر لیتے تھے۔۔۔خاموشی سے۔۔۔رازداری کے ساتھ۔۔۔ غرض کتاب محبت کی داستانوں کا ایک جزو لاینفک ہوتی تھی:
کبھی کتابوں میں پھول رکھنا کبھی درختوں پے نام لکھنا ہمیں بھی ہے یاد آج تک وہ نظر سے حرفِ سلام لکھنا
محبتیں تو محبتیں تھیں ۔۔۔۔ فرقتوں کا بیان بھی کتاب کے ذکر کے بغیر مکمل نہ ہوتا تھا:
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
کیا زمانے تھے !!
کتاب جب لوگوں کا رومانس ہوا کرتی تھی۔۔ تبھی تو ان لوگوں میں خلوص، محبت، احساس، روایات اور اقدار کا رواج تھا۔۔۔ وہ معاشرہ جیتے جاگتے انسانوں کا معاشرہ تھا اور اب۔۔۔
کتابوں سے دوری کی وجہ سے ہماری زندگی مشینی سی ہو کر رہ گئی ہے۔ اب کتابیں محض الماری کی زینت بن کر رہ گئی ہے ۔گلزار صاحب نے کس خوبصورتی سے کتابوں کے اس دکھ کو ایک نظم میں بیان کرتے ہیں:
کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں' اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں کتابیں
انہیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہوگئی ہے
آج ضرورت ہے ان کتابوں کے دکھ کو سمجھنے کی ان سے دھول مٹی جھاڑ کر دوبارہ ان سے ہم کلام ہونے کی۔ 23 اپریل کو "عالمی یوم کتاب " کے طور پر پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔اس دن پوری دنیا میں کتابوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں۔ لوگ اس دن ایک دوسرے کو کتابوں کے تحفے بھی دیتے ہیں۔
تاریخی طور پر یہ دن سترہویں صدی میں اسپین میں محبت بھرے تحائف کے تبادلے کے لیے منایا جاتا تھا ۔اسپین کے شمال مشرق میں واقع علاقے کیٹو لیںنیا میں 23 اپریل کے دن مرد و زن اپنے جذبات کے اظہار کے لئے ایک دوسرے کو گلابوں اور کتابوں کے تحفے دیا کرتے تھے۔ اس دن کو منانے کے لیے دور دراز علاقوں سے لوگ سپین کا رخ کرنے لگے اور یہ دن ایک تہوار کی شکل اختیار کرتا چلا گیا۔ 1995 میں
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی جنرل کونسل کا جب فرانس میں اجلاس ہوا تو اس دن کو "ورلڈ بک اینڈ کاپی رائٹس ڈے" کا نام دیا گیا ۔اب کیٹو لیںنیا میں ہرسال گلابوں کی ہی نہیں بلکہ کتابوں کی بھی ریکارڈ سیل ہوتی ہے۔
رواں صدی کے آغاز میں اس دن میں ایک مزید ترمیم کی گئی کہ ہر سال ایک شہر کو کتابوں کا عالمی دارالحکومت قرار دیا جاتا۔ سال 2001 میں میڈرڈ اس حوالے سے پہلا کتابوں کا عالمی دارالحکومت قرار پایا۔۔۔ ہم پاکستانیوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ بھارت کا شہر نئی دلی بھی کتابوں کا عالمی دارالحکومت رہ چکا ہے لیکن ہمارے ہاں اس دن کا کوئی شعور ہی نہیں ۔
کتاب میرا عشق ہی نہیں میرا جنون بھی ہے۔ کتابوں کی افادیت اہمیت اور ضرورت کے حوالے سے بہت سی سائنسی تحقیقات پر مبنی مواد بھی میں نے اس مضمون میں شامل کرنے کے لئے لکھ رکھا تھا لیکن اپنے پسندیدہ موضوع پر جب لکھنا شروع کیا تو اندازہ ہی نہیں رہا کہ کتابوں کی محبت میں کس قدر لکھ گیا ہوں۔اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے اب وہ معلومات کسی اور دن پہ چھوڑتا ہوں ۔۔۔ میرا یہ شعر کتابوں کے لیے میرے والہانہ دلی جذبات کا ترجماں ہے:
کسی اور دنیا میں لے جاتی ہیں
کتابوں کے پنوں سے اٹھتی مہک