کیا عورت ہمارے معاشرے میں مظلوم ہے؟
تیرہ مارچ کو سوشل میڈیا پر ایک دل خراش خبر گردش کرنے لگی۔
"رحیم یار خاں کی ایک سب انسپکٹر نے گھریلو ناچاکی کے بعد زہریلی گولیاں کھا کر خود کشی کر لی۔"
یہ خبر تو دل خراش تھی ہی لیکن اس خبر سے زیادہ دل خراش آخری پیغام تھا جو خاتون نے اپنی موت سے پہلے شیشے پر چھوڑا تھا۔ سوشل میڈیا پر ہی وائرل سرخ لپسٹک سے لکھے اس پیغام میں درج تھا:
"میری ماں مجھے معاف کر دینا تاکہ میری جان آسانی سے نکل سکے اور میری بیٹیوں کی شادی کسی انسان سے کرنا جو ان کی ذمہ داری اٹھا سکے۔" "
سوشل میڈیا پر اور بھی اس قسم کے الفاظ گردش کر رہے ہیں لیکن ان سب سے واضح ہے کہ خاتون نے اپنے شوہر کے غیر ذمہ دارانہ رویے سے تنگ آ کر ہی خود کشی کی۔ الفاظ کچھ بھی ہوں، اہم یہ نہیں کہ اس نے لکھا کیا تھا۔ اہم یہ ہے کہ ہم سوچیں کیا ہمارے معاشرے میں خواتین کے پاس واقعے ہی اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ اگر اس کا مسابقہ کسی ظالم یا اخلاق باختہ مرد سے پڑ جائے تو وہ اپنی جان چھڑا سکے۔ اگر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے تو موت کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہ ہو؟ ظاہر ہے کہ اس سوال کے جواب کو پورے معاشرے پر تبصرہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ ہر انفرادی کیس دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ لیکن اس پر تبصرہ تو ہو سکتا ہے معاشرے کا عمومی رویہ کیا ہے اور کیوں ہے۔
کم از کم میں اپنی بات کروں تو میرا مشاہدہ یہی کہتا ہے کہ معاشرہ اس قسم کے حالات میں علیحدگی کی گنجائش نہیں دیتا۔ خاتون کو کہا جاتا ہے کہ صبر کرو۔ رب تعالیٰ سب بہتر کرے گا۔ اپنے بچوں کا سوچو۔ ایک دن خاوند ضرور ہی راہ راست پر آ جائے گا۔ دیکھو تم اسی کوئی بات نہ کیا کرو جس سے اسے غصہ آ جائے۔ اگر تم علیحدگی لیتی ہو تو ساری زندگی تباہ ہو جائے گی۔
کچھ تنبیہ ہوتی ہے، کچھ خوف دلایا جاتا ہے اور کچھ تسلی دی جاتی ہے۔ یوں خاتون کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ گلے میں پڑا ڈھول بجاتی رہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کرنے کو اسلام کہتا ہے یا اس کی کچھ اور وجوہات ہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ خاندان کسی بھی معاشرے کی بنیادی اکائی ہوتی ہے۔ ایک مظبوط معاشرہ، مضبوط خاندانوں سے ہی وجود میں آتا ہے۔ اسی لیے اسلام بھی خاندان کی مضبوطی پر ہی زور دیتا ہے۔ لیکن یہاں سوال ایسے گھرانے کی تشکیل کا ہو رہا ہے جہاں مرد اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہا۔ الٹا دھونس زبردستی اور جبر سے اپنی بالادستی قائم کیے ہوئے ہے۔ ایسے میں کیا خاتون کے پاس کوئی راستہ نہیں کہ وہ ایسے خاندان سے علیحدگی اختیار کر سکے۔ اگر اسلام کی بات کی جائے تو ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام نے یہ دروازہ کھلا رکھا ہے۔ خاتون کے پاس حق ہے کہ وہ خلا لے سکے۔ اس پر علما کا اختلاف ہو سکتا ہے کہ خلا کا طریقہ کار کیا ہوگا۔ لیکن اس پر سب متفق ہیں کہ اسلام خاتون کو خلا کا حق دیتا ہے۔ اسلام تو یہاں تک جاتا ہے کہ اگر خاتون چاہے تو خلا کے حق کی شک اپنے نکاہ نامے میں بھی رکھوا سکتی ہے۔ عقل اور انسانی فطرت بھی اسی چیز کا تقاضہ کرتی ہے کہ ایسے انسان سے کنارہ کشی اختیار کر لی جائے جس کےساتھ رہنا ممکن نہیں۔ اب رہا سوال کہ کیا کسی نکاح سے آزاد ہوئی خاتون کسی دوسرے کے ساتھ گھر نہیں بسا سکتی۔ تو کم از کم اسلام کی حد تک تو یہ ہی دلیل کافی ہے کہ حضور نبی پاک ﷺ کے نکاح میں حضرت بیبی عائشہ کے علاوہ باقی تمام زوجین یا تو مطلقہ تھیں یا بیوہ۔ کسی مطلقہ کے نکاح پر سوال اٹھانا حضور نبی پاک پر سوال اٹھانے کے مترادف ہے۔ ظاہر ہے اس کا تو کوئی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا۔
اسلام کی تو تمام معاملے پر کھلی ہدایات موجود ہیں۔ سوال اٹھتا ہے آخر کیوں پھر ہمارے معاشرے میں ایسا رویہ موجود ہے جو خاتون کو ہر قسم کے مرد سے آخری دم تک نباہ کرنے پر مجبور کرتا ہے؟ کیوں مطلقہ خواتین کو شک یا قابل رحم نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے؟ ہماری سختیاں کیوں خاتون کے پاس صرف وہ راستہ چھوڑتی ہیں جس پر رحیم یار خان کی سب انسپکٹر چل پڑی۔ ٹھیک ہے کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ خاتون عسائی تھی اور عسائیت کی ہدایات اس زمن میں اور ہیں۔ لیکن میرے اپنے ذاتی مشاہدے میں کئی ایسی مثالیں ہیں جس میں خاتون کے پاس کوئی راستہ نہیں سوائے کہ آخری دم تک وہ ساتھ دیے جائے جس کا فیصلہ بھی اس نے نہیں کیا۔ اسے کہا گیا کہ ہم چھان بین کر چکے تم ہاں کر دو اور اس نے ہاں کر دی۔ اب عیب تو باپ اور بھائیوں کی چھان بین میں نکلے تو وہ کیوں ساری زندگی اس کا بوجھ اٹھائے؟ کیوں اس کے پاس راستہ نہیں کہ وہ وہ قدم اٹھا لے جس کی اجازت اسلام نے دی ہے۔ جبکہ نظر آ رہا ہے کہ یا تو رو دھو کے چلتے جاؤ یا راستہ بدل لو۔
جذبات سے ہٹ کر میرے خیال میں اس کی چار بڑی وجوہات ہیں۔ ایک معاشی ، دوسری ثقافتی ، تیسری معاشرتی اور چوتھی اولاد۔
معاشی وجہ یہ کہ جب خاتون بیاہ دی جاتی ہے تو تصور کیا جاتا ہے کہ اب اس کے نان نفقے کی ذمہ داری شوہر کی ہوئی۔ اب خدا نا خواستہ شوہر صاحب نکلے ناحنجار۔ خاتون نے بھائیوں یا باپ کی طرف پلٹنا ہے۔ لیکن بھائی تو بیچارے اپنے گھر مشکل سے کھینچ رہے ہیں۔ بہن کو کہاں سے سنبھالیں؟ اوپر سے بہن کی اولاد ہوئی تو سونے پر سوہاگا۔ باپ بھی ظاہر بڑھاپے کو پہنچ چکا ہوتا ہے۔ کہاں سے اب بیٹی کی ذمہ داری اٹھائے۔ اب اس مشکل سے بچنے کے لیے خاتون کے میکے والے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ وہ جس گھر کو سدھار چکی وہیں رہے۔ اس مشکل سے نکلنے کے دو ہی راستے ہیں۔ ایک یا تو خاتون خود اس قابل ہو کہ اپنی زندگی چلا سکے یا ریاست مدد کا بندوبست کرے۔
دوسری وجہ ثقافتی ہے۔ اناٹل لیون نے ایک مشہور کتاب لکھی ہے۔ (Pakistan a Hard Country)۔ اس میں اس نے درج کیا کہ پاکستانی معاشرہ ایک روایت پسند معاشرہ ہے۔ نہ تو یہ اس طرف چلتا ہے جس طرف اسلام کہے جس پر چلنے کا یہ دعویٰ کرتا ہے اور نہ ہی آزاد مغربی اقدار پر۔ اس کے اطوار میں روایات ہیں جو سب سے مضبوط ہیں۔ میں لیون کے اس مشاہدے سے بہت حد تک اتفاق کرتا ہوں۔ اب آپ تو جانتے ہیں کہ ہماری روایات، برسوں میں ہندوستانی معاشرے میں بنی ہیں۔ میں ہندو مذہب پر کوئی سخت بات نہیں کر رہا، لیکن حقیقت تو یہ ہے نہ کہ اس میں سطی جیسی رسومات موجود ہیں۔ یہ خاتون کو شوہر پر ہر طرح نچھاور ہونے کا کہتا ہے۔ اس کا غلام بن کر رہنے کا کہتا ہے۔ اب وہاں کی اقدار ہمارے ہاں در آئی ہیں تو ایسا پھر تو ہوگا۔ اس کا حل تو صرف یہی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو صیحی اسلامی تعلیمات فراہم کریں۔ انہیں اس میں موجود مرد اور عورت کے حقوق سے اگاہ کریں۔
تیسری وجہ معاشرتی ہے۔ معاشرے میں مطلقہ یا خلہ لیے ہوئے خاتون کا قبولیت کا درجہ وہ تو نہیں ہے نہ جو کنواری کے لیے ہے۔ یہ تصور تو موجود ہے کہ طلاق کے بعد خاتون کی زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ ٹھیک ہے کہ طلاق زندگی کا بہت بڑا حادثہ ہوتا ہے۔ لیکن اس حادثے سے آگے بڑھنے کے راستے بھی تو ہوتے ہیں۔ معاشرے کو ان راستوں کو کھولنا چاہیے۔ اگر ایک خاتون ابھی ادھیڑ عمری کو نہیں پہنچی تو اس کے لیے کوئی بندوبست کرنا چاہیے۔ تاکہ اس کا گھر بسے اور وہ اپنی زندگی معمول کے مطابق گزار سکے۔
چوتھی وجہ اولاد ہے۔ جہاں یہ وجہ بہت حد تک مرد کے پاؤں جکڑتی ہے تو وہیں یہ خاتون کے لیے بھی مشکلات پیدا کرتی ہے۔ اگر اولاد کی موجودگی میں بھی خاوند اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا تو میرا خیال ہے کہ خدا پر بھروسہ کر کے راستہ جدا کر ہی لینا چاہیے۔ کم از کم وہ حلات تو پیدا نہیں ہوں گے ناں جو رحیم یار خان والی خاتون کے ہو گئے۔ اور نہ ہی آپ کے بچے روز کی گھر کی لڑائی سے تنگ آ کر ان بچیوں کی طرح قدم اٹھائیں گے جیسے لاہور میں چار پانچ بہنوں نے اٹھایا۔ میں اس واقعے کا حوالہ دے رہا ہوں جس میں لاہور میں چار بچیاں والدین کے لڑائی جھگڑے سے تنگ آ کر گھر سے نکل گئیں۔ انہیں تو ا ایک شریف رکشے والا مل گیا تھا جس نے اپنی بیٹیوں کی طرح انہیں دو روز تک اپنے پاس رکھا۔ شاید یہ آپ کے بچوں کو نصیب نہ ہو پائے۔
خاندان کسی بھی معاشرے کا سب سے اہم جز ہوتا ہے۔ اس کو قائم رکھنے کے لیے ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ خاندان کے دونوں بنیادی ارکان یعنی مرد اور عورت ذمہ داری کا ثبوت دیں۔ کیونکہ یہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں اپنی خواتین کو اس کو قائم رکھنے کے لیے ظلم کی حد تک قیمت ادا کرنے سے بچانے کے لیے درجہ بالا وجوہات پر کام کرنا ہوگا۔ یہ نہ تو خواتین مارچ کی طرح نعرے لگانے سے ہوگا اور نہ روایتی طریقہ کار کی طرح خواتین کو دبانے سے۔ ہم سب کو اس زمن میں ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا تاکہ پھر کبھی ہماری خاتون مرد کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے خود کشی نہ کرے۔