عالمی یوم نسواں، مغرب کے کھوکھلے دعووں کا ایک سال اور بیت گیا
گزشتہ سال یوم نسواں کے موقع پر جرائم سے نڈھال میکسیکو کی خواتین نےجنسی مظالم کے خلاف اپنی تاریخ کا سب سے عظیم احتجاج کیا اور پولیس سے بھڑِگئیں۔ اس واقعہ کے ایک ہفتہ بعد لندن میں خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کا خاتمہ کرنے کی خاطر ایک بڑا مظاہرہ کیا گیا اورپھر یہ آگ ہزاروں میل دور آسٹریلیا پہنچی جہاں دارالحکومت کینبیرا سمیت چالیس شہروں میں، جلوس برائے انصاف (march for justice) نکال کر عورتوں نے اپنے غم غصے کا اظہار کیا، جس میں جملہ پچاسی ہزار خواتین نے شرکت کی۔ مظاہرین کے وفد کوو زیر اعظم اسکاٹ موریسن نے اپنے دفتر میں ملاقات کی دعوت دی تو اسے ٹھکرا کران سے کہا گیا کہ اگروہ آکر ملیں تو کھلے عام بات ہوگی، لیکن کوئی بات چیت کے لیے نہیں جائےگا۔ اس شدید ناراضی کی وجہ حال میں اٹارنی جنرل کرشچین پورٹر پر دست درازی کا الزام اور اس کے بعد ایوان میں زیر ملازمت ایک خاتون کے ذریعے عصمت دری کا الزام ہے۔ماتمی سیاہ لباس میں مظاہرہ کرنے والیاں ‘ خواتین کو انصاف دو’ کے فلک شگاف نعرے لگا رہی تھیں۔
تین مختلف براعظموں کے اندر نام نہاد ترقی یافتہ ممالک میں ہونے والے یہ مظاہرے اس بات کا ثبوت ہیں کہ 110 سال بعد بھی حقوق نسواں کی تحریک اپنے مقاصد کے حصول میں کام یاب نہیں ہوسکی ہے۔
آسٹریا،جرمنی،ڈنمارک اور سوئزرلینڈکے اندر پہلی بار 1911 میں خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔ اس دن دس لاکھ مرد و خواتین نےعورتوں کی سرکاری و نجی دفاترمیں ملازمت، رائےدہندگی، پیشہ ورانہ تربیت کے حصول اور تعصب کےخلاف آواز اٹھائی۔1917 میں روسی خواتین امن کےلیے میدان میں آئیں مگر جنگ کو ٹال نہ سکیں۔ 02 لاکھ فوجیوں کی ہلاکت کے بعد انھوں نے روٹی اور امن (بریڈ اینڈ پیس) نامی مہم کا آغاز کیا۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں امریکہ کی آزادیٔ نسواں کی تحریک نے اسے آگے بڑھایا۔ سن 2000کے آتے آتےو و متضاد وجوہات کی بنا پر یہ بلبلہ پھوٹ گیا۔ آزادیٔ نسواں کی تحریک کو کچھ لوگ خاندانی نظام کی تباہی کا سبب سمجھنے لگے اور بہت سی خواتین نے یہ سوچناشروع کردیا کہ خواتین سے متعلق تمام مسائل حل ہوگئے ہیں۔
ان دونوں مفروضات کا معروضی جائزہ بتاتا ہے کہ آزادیٔ نسواں کی تحریک کے مغرب میں خاندانی نظام پر ثبت ہونے والے منفی اثرات کا انکار ممکن نہیں ہے۔ او ای سی ڈی (OECD) نامی36 ممالک کے وفاق میں یوروپ، امریکہ اور آسٹریلیا جیسے نام نہادترقی یافتہ ممالک شامل ہیں۔ 2016-2017 کے اعداووشمار کے مطابق وہاں پر اکیلے ایک سرپرست کی کفالت میں پرورش پانے والے بچوں کی تعداد 6سے 28فی صد تک تھی جس کا اوسط 17فی صد بنتا ہے۔ ان میں سب سے کم 6 فی صد ترکی اور سب سے زیادہ 28 فی صد لاٹویا میں تھا۔ اس سے کم 27 فی صد پر امریکہ 25 پر بیلجیم، اور 23 فی صدپر فرانس اور برطانیہ تھے۔ گوناگوں وجوہات سے یہ بچے صرف ماں یا باپ کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ امریکہ میں 2010 کے اندر کیے گئے جائزے کے مطابق 40.7فی صدبچے غیر شادی شدہ ماوں نے جنم دیے۔ ان میں سے کچھ بچوں کی پیدائش طلاق کے بعد ہوئی تھی۔ امریکہ کے اندرایسے 27فی صد بچوں میں سےفی صد80فی صد والدہ کے ساتھ رہتے ہیں۔ آزادیٔ نسواں کی تحریک کا امریکہ کی خواتین پر یہ احسان ہے۔ اس کے خلاف اگر عورتوں کے اندر غم وغصہ نہ ہو تو کیاہوگا؟
آزادیٔ نسواں کے حوالے سے دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ اس نے خواتین کے سارے مسائل حل کردیے، اس بابت خود مغرب کے ماہرین اعتراف کرتے ہیں کہ کینیڈا جیسے ترقی یافتہ ملک میں مردوں اور خواتین کے درمیان معاشی فرق کو مٹانے میں مزید تقریباً 164 سال کا عرصہ درکارہے جب کہ معاشی مساوات کے معاملے میں کینیڈا 36 ممالک میں 31ویں مقام پر ہے۔ عالمی سطح پر معاشی مساوات کا امکان تقریباً 257 سال بعد ہے۔ایک اندازے کے مطابق سیاسی طور پر خواتین کی شمولیت کے معاملے میں مردو زن کی مساوات قائم کرنے میں تقریباً 95 سال لگیں گے۔2019 میں پارلیمانی سطح پر خواتین 25.5فی صد نشستوں کی حامل تھیں اوران میں سے وزرا کا تناسب صرف 21.2فی صد فی صد تھا۔ یہاں تک کہ تعلیمی کے میدان میں بھی دونوں اصناف تقریباً 12 سال بعد یکساں سطح پر آسکیں گے۔ مغرب نے مساوات کا جو معیار مقرر کیا ہے اس پر تو کلام کیا جاسکتا ہے مگر خود ان کے اہداف کی روشنی میں بھی جائزہ لیا جائے تو یہ اعدادوشمار اس کی ناکامی کو بے نقاب کرتے ہیں۔
معاشی ترقی تو دور آج تک خواتین پر تشدد اور جرائم پر نکیل نہیں لگائی جاسکی اس لیے دنیا بھر میں 25 نومبر کو عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد دنیا بھر میں عورتوں پر ہونے والے نفسیاتی، جسمانی اور جذباتی تشدد کی بابت آگاہی فراہم کرنا ہے۔ دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک امریکہ عورتوں کے خلاف تشدد سے نمٹنے کو انسانی حقوق کی ایک ضرورت قرار دیتا ہے۔ وہ اس تشددکو عورتوں کی سلامتی کے لیے خطرہ اور اُن کی خوش حالی اور ان کےقائدانہ کردارکی ادا ئیگی میں رکاوٹ تسلیم کرتا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ تشدد کا شکار ہونے والی عورتوں کو، بالخصوص جنگ زدہ علاقوں میں طبی سہولتیں، روزگار اور قانونی خدمات فراہم کرنے والی “وائسز اگینسٹ وائلنس کنسورشیم” (تشدد کے خلاف آوازوں کی تنظیم) کی حمایت کرتا ہےکیونکہ آج بھی امریکی معاشرے میں تشدد کرنے والے مردوں کوعموماً اُن کے جرائم کی قرار واقعی سزا نہیں ملتی اور تشدد کا شکار ہونے والی بہت سی عورتیں خاطر خواہ دادرسی سے محروم رہ جاتی ہیں۔
چند سال قبل لیے جانے والے ایک جائزے کے مطابق دنیا کی کل آبادی کااوسطاً35فی صد خواتین تشدد کا شکار ہوتی ہیں جب کہ ہندوستان میں یہ شرح 70فی صدہے۔آسٹریلیا، کینڈا، اسرائیل، جنوبی افریقہ اور امریکہ میں گھریلو تشدد کا شکار خواتین 40فی صداور70فی صدکے درمیانھیں۔ عالمی سطح پر64ملین لڑکیاں 18سال سے کم عمر میں بیاہی جاتی ہیں، جسکا 20فی صد کم عمر میں حاملہ ہونے اور خون کی کمی کے سبب فوت ہوجاتا ہے۔ عالمی سطح پر140ملین لڑکیاں اور عورتیں جنسی تشدد کا شکار ہیں۔ امریکہ کی حالیہ تحقیق کے مطابق 33 فی صد خواتین تشدد کا شکار ہوتی ہیں اور انسانی تجارت میں خواتین کی تعداد 71 فی صد ہوتی ہے۔ اس میں سے 75 فی صد کو جنسی زیادتی کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ عورتوں کی عصمت دری، فاتح قوم کی جنگی منصوبہ بندی کا حصہ بن چکی ہیں۔ 1992-95کے درمیان بوسنیا میں20,000 اور ہرزرے گوئنا میں50,000عورتوں کی اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ 1994کی نسل کشی میں روانڈا کے اندر50,000عورتیں عصمت دری کے بعد قتل کردی گئیں۔برطانیہ میں 40فی صدتا70فی صدعورتیں ملازمت کے دوران جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔
دنیا میں انسانی حقوق کے علم بردار امریکہ میں83فی صدلڑکیاں 12سے 16سال کی عمر میں اپنی عصمت گنوا بیٹھتی ہیں۔ براک اوباما کے مطابق ملازمتی وقفے کے دوران ہر تیسری عورت جنسی استحصال کا شکار ہوجاتی ہے۔ ان کے ساتھ سابق صدور پر بھی جنسی استحصال کا الزام لگ چکا ہے۔امریکہ کی ریاستوں میں صحت کے مروجہ نظام میں کئی عورتوں اور لڑکیوں کو طبی انشورنس کی سہولت نہیں ملتی اس لیےان میں زچگی کے باعث ہونے والے سرطان سے اموات کی تعداد دیگر دولت مند ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔سفید فام خواتین کے مقابلے سیاہ فام عورتوں کی حالت ابتر ہے۔ زمینی صورت حال یہ ہے کہ 2020 میں عالمی تناظرمیں خواتین پر تشدد میں اضافہ ہو ا ہے۔ می ٹو مومنٹ کے مطابق شمالی امریکہ میں جنسی تشدد اور تنخواہوں میں ابھی تک بہتری واقع نہیں ہوئی۔ خواتین کی غربت ابھی بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ صنفی مساوات ابھی واقع نہیں ہوئی ہے۔
مغرب کی دگر گوں صورت حال میں بہتری کی خاطر اقوام متحدہ نے 1975 میں خواتین کا عالمی دن منانا شروع کیا۔ اقوام متحدہ نے 1975 میں خواتین کا عالمی دن منانا شروع کیا۔ اس کے دو سال بعد باقاعدہ قرارداد منظور کر کے تمام ارکان ممالک میں حقوق نسواں کی بحالی کے لیے یوم خواتین منعقد کرنے کی روایت ڈالی گئی۔ 2020 میں یوم نسواں پر اقوام متحدہ کا نعرہ تھا: ’’ میں مساوات پر یقین رکھنے والی نسل ہوں جو کہ خواتین کے حقوق کومساوات کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے گی۔‘‘ اس خوش نما نعرے کے ٹھیک ایک سال بعد سوئزرلینڈ میں عبادت گاہوں کے علاوہ عوامی مقامات پر برقع اور نقاب پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اس طرح گویا سال بھرکے اندر خواتین کے مساوی حقوق کی تکمیل ہو گئی اور سوئزرلینڈ کی مسلم عورتوں سے ان کے لباس کی آزادی کا حق چھین لیا گیا۔ اس کا مطلب یہ کہ سوئزر لینڈ کی مسلمان عورت جینز پہن سکتی ہے۔ اس کو اسکرٹ یا منی اسکرٹ پہننے کی آزادی حاصل ہے۔ وہ ساڑھی اور ہاف پینٹ بھی زیب تن کرکے بازاروں میں گھوم سکتی ہے مگر برقع یا نقاب پہن کر گھر یا عبادت گاہ سے باہر نہیں نکل سکتی۔ اس طرح گویا مسلم خواتین کے لباس کی آزادی سلب کرلی گئی حالاں کہ مسلمان مردوں پر بھی ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔
کیا ایسا کرنا آزادی اور مساوات سے ہم آہنگ ہے؟ اگر نہیں تو اس نا انصافی کے خلاف دنیا بھر کی خواتین نے احتجاج کیوں نہیں کیا؟ اگر افغانستان کے اندر طالبان یہ فرمان جاری کردیتے کہ کوئی خاتون حجاب کے بغیر اپنے گھر یا عبادت گاہ سے باہر نہیں آسکتی تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغرب کی جانب سے دنیا بھر کا واویلا کیا جاتا اور مسلمانوں کے اندر بھی مغرب زدہ لوگ سمجھانے بجھانے کے لیے میدان میں کود جاتے۔ اس میں ناکامی کے بعد اسلام کی صفائی دینے کا بیڑہ اٹھا لیتے۔ سوئزر لینڈ کےمعاملے میں وہ سارے نام نہاد دانش ور چپ سادھے ہوئے ہیں کیوں کہ وہاں یہ کام جمہوری طریقے سے کیا گیاہے۔ دائیں بازو کی سوئس پیپلز پارٹی نے اس تجویز کو ایوان میں پیش کیا اور پھر را ئے دہندگی کرائی گئی۔ عوام نے اس تجویز کی حمایت میں ووٹ دے دیا ہے تو گویا یہ جبر و استبداد جائز ہوگیا۔
سوئزر لینڈ میں یہ ظلم جمہوریت کی آڑ میں کیا گیاہے۔ ایک بے ضرر اقلیت کے حقوق سلب کرنے کی خاطر اس کے خلاف ذرائع ابلاغ کی مدد سے رائے عامہ کو ہم وار کی گیا۔ عوام نےووٹ دے کر جمہوری طریقے سے اقلیتوں کے بنیادی حقوق پر شب خون ماردیا۔ عصرِ حاضر میں عوام کے حقوق سلب کرنے کا سب آسان طریقہ یہ ہے کہ کسی طبقے کے خلاف ذرائع ابلاغ کی مدد سے رائے عامہ کو ہم وار کرو اور پھر جمہوریت کے نام پر اس کے حقوق چھین لو۔ اس مقدس گائے کے خلاف لب کشائی کی جرأت کوئی نہیں کرے گا۔ اب ذرا تصور کیجیے طالبان بھی نیا قانون نافذ کرنے سے قبل ملک میں استصواب رائے کرواتے اور ملک کی ۹۹ فی صد عوام اس کے حق میں رائے دیتی تب بھی مغرب یہ دلیل پیش کرتا کہ جسم کی نمائش خواتین کا بنیادی حق ہے اور عوام کی رائے سے اس آزادی کو سلب نہیں کیا جاسکتا۔ چلیے مان لیا کہ اگر جسم کی نمائش بنیادی حق ہے تو کیا جسم کو ڈھانپنے کا اسے حق نہیں ہے؟ اس کو اس آزادی سے عوام کی رائے کے ذریعے کیسے محروم کیا جاسکتا ہے؟ یہ ہےمغرب کی منافقت۔
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ووٹوں کے عارضی نتائج میں صرف 51.21 فی صد رائے دہندگان نے اس تجویز کی حمایت کی ہے۔ یعنی ملک کی مسلم خواتین کو ان کے حق سے محروم کرنے کے لیے محض ڈیڑھ فی صد کی ووٹ کی فوقیت کافی ہے۔مغرب کے معروضی انداز میں بھی دیکھا جائے تو اس رائے دہندگی میں ووٹ دینے والے پچاس فی صد مرد وں کو تو خواتین کے لباس کی بابت فیصلہ کرنے کا سرے سے کوئی حق ہی نہیں ہے۔ باقی پچاس فی صد خواتین میں 95 فی صد غیر مسلم خواتین کو حجاب پہننا نہیں ہے اس لیے وہ کون ہوتی ہیں یہ طے کرنے والی کہ 5 فی صد مسلم خواتین کو کیا پہننا چاہیے اور کیا نہیں؟ان لوگوں کو جن کا حجاب سے کوئی تعلق نہیں کس نے یہ حق دے دیا کہ وہ 2.5 لاکھ مسلم خواتین پر اپنی مرضی تھوپیں؟ اب جب کہ بشمول غیر متعلق لوگ سبھی نے ووٹ دیا تب بھی صرف 51.21 فی صد ملے تو اگر اس رائے شماری میں صرف مسلم خواتین کی رائے لی جاتی تو کتنا فی صد ہوتا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
سوئٹزرلینڈ کی اسلامی تنظیموں نے اس ووٹنگ کو مسلمانوں کے لیے “’سیاہ دن“‘ کے طور پر منایا۔مسلمانوں کی مرکزی کونسل نے اس فیصلے کو پرانے زخموں کو کھولنے کے مترادف قرار دے کراسے قانونی عدم مساوات کو مزید وسعت دینے والا بتایا۔ کونسل کے مطابق اس کے ذریعے مسلم اقلیت کو الگ تھلگ کرنے کا واضح اشارہ کیا گیا ۔پرپل ہیڈ سکارف نامی مسلم خواتین کے گروپ نے مجوزہ قانون کو بےمصرف، نسل پرستانہ اور جنس زدہ قرار دیا ہے۔مسلمانوں نے اس ریفرنڈم کے خلاف عدالت سے رجوع کرکے قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا ۔حیرت اس پر ہے کہ یہ حرکت ایک ایسے وقت میں اشتعال دلاکر سیاسی مفاد حاصل کرنے کی خاطر کی گئی جب کہ سوئٹزرلینڈ کی یونیورسٹی آف لوسرین میں ہونے والی تحقیق کے مطابق ملک کی مسلم خواتین میں صرف 30 فی صد کے قریب خواتین حجاب پہنتی ہیں اور عملی طور پر کوئی بھی برقع نہیں پہنتا۔
ویسے اس رائے شماری سے پہلے دو سوئس ادارے رائے عامہ کی پروا کیے بغیر نقاب پر مقامی پابندی عائد کرچکے ہیں لیکن یوروپ میں ہونے والی اس ناانصافی کے خلاف بولنے کی ہمت کسی میں نہیں ہے اس لیے کہ ان کے خلاف بولنے والےکو غیر مہذب اور انتہا پسند کے لقب سے نواز دیا جاتا ہے اور اس گالی سےخوف زدہ دانش ور خاموشی میں عافیت سمجھتےہیں۔ اس کے برعکس اسلام اور مسلمانوں پر تنقید کرنے والوں کو چوں کہ روشن خیال اور ترقی پسند قرار دے دیا جاتا ہے اس لیے ہر ایرا غیرا نتھو خیرا ہاتھ پیر مارکر اس سعادت کی حصول یابی پر فخر جتاتا ہے۔ سوئس حکومت اس رائے شماری سے قبل ملک گیر پابندی کی مخالفت تھی۔ اس کا موقف تھا کہ چہرے کا پورا پردہ پہننا ملک میں ایک ’’قدیم رجحان’‘ ہے۔ اس کے بجائے حکومت نے ایک قانون کی تجویز پیش کی تھی جس کے تحت لوگوں کو شناخت کے مقصد کی خاطر چہرہ کھولنے کا پابند کیا جانا تھا لیکن بھلا ہو مغربی جمہوریت کا کہ اس نے یہ دروازہ بند کرکے اپنا فسطائی چہرہ بے نقاب کردیا۔ 2021 میں یوم نسواں کے موقع پر ’’اپنے چیلنج کا انتخاب کریں ‘‘ کا نعرہ بلند کیا گیا ہے۔ سال کے آخر تک اس کا حشر بھی معلوم ہوجائے گا؟