امریکی جرائم سے پردہ اٹھانے والے جولین اسانج سے کیا ہونے جارہا ہے؟
میرے پاس آپ کو دکھانے کے لیے کچھ دردناک مناظر ہیں اور انسانیت کو شرمندہ کردینے والی کچھ تصویریں۔ عراق کی خون آلود فضاؤں پر امریکی اپاچی ہیلی کاپٹر اڑتا جا رہا ہے۔ اچانک اس نے فائر کھولا اور بہت سے نہتے عام شہریوں کو بھون ڈالا۔ وہ دیکھیے بلیک واٹر کے امریکی کرائے کے قاتل کیسے قتل عام کرتے پھر رہے ہیں۔ یہ ایک اورتصویر دیکھیے اور جانیے کہ عراق کے ابوغریب جیل میں کیسے انسانیت داغ دار ہو رہی ہے۔ یہ پڑھیےکہ امریکی حکام نوگیارہ کے درمیان آپس میں کیا بات چیت کر رہے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ لاکھوں سفارتی کیبلز بھی پڑھیے جو سفارتکار ایک دوسرے کو بھیجتے رہے۔ ان نوے ہزار فائلز کو دیکھنا نہ بھولیے گا جو یہ بتا رہی ہیں کہ امریکہ افغانستان میں گھس کر کیا کرتا رہا، ان چار لاکھ فائلز کو بھی نہیں جو بتاتی ہیں عراق میں امریکہ نے کیا کیا۔ اس سب مواد میں آپ کو ایران اور سعودی عرب کے حکمرانوں کے’ کارہائےنمایاں ‘بھی دیکھنے کو ملیں گے۔ کان ادھر لائیے اپنے کچھ کرم فرماؤں کی کہانیاں بھی ہیں۔ پڑھیے گا مزا آئے گا۔ بس اپنے تک رکھیے گا پھر۔ لکھنے بولنے کی اجازت نہیں ۔
یہ سب آپ کو ملے گا 2010 اور 2011 کی وکی لیکس میں۔ جس کے سرخیل تھے وکی لیکس کے بانی جولین اسانج۔ وہی اسانج جن کو آج اپنی صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی پاداش میں اس امریکی و برطانوی عدالتی نظام کا سامنا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ ہر حال میں انصاف کرتا ہے۔ شاید یہ بھی ان کا انصاف ہی ہو کہ جس نے امریکہ کی دُم پر پاؤں رکھا، اس نے جرم کیا ہو یا نہ، اسےسزا ملے گی۔ جیسے سینکڑوں گوانتا نامو سمیت دیگر خفیہ و عیاں قید خانوں میں بے گناہ انسانوں کو ملی ہے۔ امریکہ کہتا ہے کہ جولین اسانج نے وکی لیکس میں امریکی خفیہ معلومات بیچ چوراہے کے لا کر امریکی قانون توڑا ہے۔ اس کی معلومات کی وجہ سے کئی لوگوں کی زندگی خطرے میں پڑی ہے۔ لہٰذا اسے سزا ملنی چاہیے۔
بڑی عجیب بات ہے بھئی۔ جولین اسانج نہ امریکی شہری ہے، نہ اس نے جرم امریکی زمین پر کیا ہے، امریکہ اپنا قانون جولین اسانج پر لاگو کیسے کر سکتا ہے؟ کیا پتہ کر سکتا ہو! میں کوئی قانونی ماہر تھوڑی ہوں۔ ویسے بھی ایک عالمی قانون تو موجود ہی ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ کیا پتہ یہ اس کا ہی اطلاق ہو۔ ہو سکتا ہے بھئی۔ بڑوں کی باتیں بڑے ہی جانیں۔ ہمیں کیا پتہ۔ ہم تین میں نہ تیرہ میں۔
بہرحال ابھی ہمارے پیٹ میں جولین اسانج کا درد اس لیے جاگا ہے کیونکہ برطانیہ ،جہاں اسانج قید ہے، کے وزیر داخلہ نے پچھلے ہفتے انہیں امریکہ کے حوالے کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ انسانی حقوق کے علم بردار برطانیہ میں جولین اپریل 2019 سے قید کاٹ رہیں ہیں اور مزے کی بات ہے کہ برطانیہ کی کسی عدالت میں ان پر کوئی کیس نہیں۔ ہاں امریکہ میں ضرور ہیں۔ کم و بیش سترہ اٹھارہ۔ اگر ان سب انہیں پر سزا ہوجائے تو مل ملا کر ماہرین کے مطابق 170 برس کی سزا ہوگی۔
کہانی تمام یہ ہے کہ جب 2010-2011 میں اسانج نے وکی لیکس کی تھیں تو امریکہ پیچھے پڑ گیا تھا۔ 2012 میں جب اسانج کو یقین ہونے لگا کہ برطانیہ کا عدالتی نظام ان کے دفاع کے لیے نہیں آئے گا اور انہیں سوئیڈن بھیج دیا جائے گا، جہاں سے باآسانی امریکہ انہیں اڑا لے جائے گا تو انہوں نے لندن میں واقعہ ایکواڈور کے سفارت خانے میں جا کر پناہ لے لی۔ جون 2012 سے لے کر اپریل 2019 تک وہ وہاں پناہ گزیں رہے۔ پھر ایکویڈور نے میزبانی سے ہاتھ کھڑے کر لیے۔ جیسے ہی وہ سفارتخانے سے باہر آئے تو برطانوی پولیس نے گرفتار کر لیا۔ تب سے امریکہ انہیں اپنے ہاں لانے کی کوششوں میں لگا ہے۔ معاملہ عدالتوں میں تھا۔ جہاں پہلے ایک جج نے کہا کہ انہیں امریکہ کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ نے فیصلے کے خلاف اپیل کی۔ پھر امریکہ سے گارنٹیاں مانگی گئیں کہ ان سے غیر انسانی سلوک نہیں ہوگا۔ لیکن امریکہ اپنی اس قسم کی گارنٹیوں سے کیسے مکرتا ہے، آپ ہمارے جولین اسانج پر پچھلے مضمون میں پڑھ سکتے ہیں۔ لنک آپ کو مل جائے گا۔ بہرکیف گارنٹیاں اور یقین دہانیاں لینے کے بعد کہہ دیا عدالت نے۔ چلو پھر لے جاؤ، ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔ جہازوں کا پٹرول کونسا ہمارے پلے سے جانا ہے۔
اسانج کی بیگم اور دیگر صحافی شور وور مچاتے رہے۔ لیکن کیا ہو سکتا تھا۔ معاملہ برطانیہ کی وزارت داخلہ میں گیا، جہاں وزیر داخلہ پٹی پٹیل نے کہا کہ ہمیں اسانج کو امریکہ کے حوالے کرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔ ہاں بھئی پٹی پٹیل کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے، جب آسٹریلیا جس کا وہ شہری ہے، اس کی حکومت کو کوئی اعتراض نہیں۔ آسٹریلیا کے وزیراعظم نے بھی کہا ہے، ساڈے ولوں جو مرضی کرو۔
لیکن ماتم سراسر یہ ہے کہ زمین سے واقعی انصاف اٹھتا جا رہا ہے۔ جہاں کے انصاف کی داستانیں ہم سن سن کر جوان ہوئے ہیں، وہاں یہ سب مذاق چل رہا ہے۔ ہمارے عدالتی نظام کی بات تو چھوڑ ہی دیں بس۔ سزا اس کو تو ملے گی جس نے ظلم سے پردہ اٹھایا۔ اسے نہیں جس نے ظلم کیا۔ میرے پیٹ میں بھی اسانج کا درد اسی لیے اٹھا تھا کہ کوئی تھا جس نے دنیا کو بتایا کہ اکیسویں صدی میں دن دیہاڑے انسانوں پر کیا قیامت بیت گئی۔ ورنہ مجھے کیا لگے، کوئی جیے کوئی مرے۔ میں تو تماشائی ہوں۔ آپ کی طرح۔