ویل ڈن مسٹر
پاکستان جو اللہ کے نام پر ، اللہ کے بندوں کی خاطر بنایا گیا ،جب ہم اس کے بانی کو دیکھتے ہیں تو "انگریزی سوٹ میں، گردن اونچی کیے، سیدھا بیٹھا ، منہ میں سگار لیے " ایک عام دنیادار ، مغربی لباس و لہجہ کا ایک شخص نظر آتا ہے۔ یہ مغربی لب و لہجہ کا حامل شخص اپنے اصولوں ، اخلاقی تقاضوں، ذہانت اور امانت داری میں سب سے آگے کھڑا نظر آتا ہے ۔ بے اختیار دل اس کی خوبیوں کو سراہتے ہوئے کہتا ہے "ویل ڈن مسٹر۔۔۔"۔
اصولوں میں اس قدر سخت کہ موکل کی پیشگی پیش کردہ رقم یہ کہہ کر لوٹا دی کہ "فیس اپنے وقت کے حساب سے لیتا ہوں ، ایک گھنٹہ لگے یا تیس دن، کام مکمل ہونے پر آپ کے پاس میرا بل پہنچ جائے گا۔" موکل کے اندازوں کے برعکس اس کا کام چند گھنٹوں میں مکمل ہو گیا ۔ جس پر موکل نے زیادہ رقم دینے پر اصرار بھی کیا مگر جناح نے صرف وقت کے حساب سے اپنی فیس وصول کی۔
اگر بات ہو امانت داری کی تو ہم دیکھتے ہیں کہ ایک بارجناح اپنے موکل کی طرف سے کیس لڑنے آگرہ آئے ۔ وہاں کے مسلمانوں کو علم ہوا تو انہوں نے جناح کو زور دیا کہ وہ آئے ہوئے ہیں تو جلسہ کرلیں اور مسلمانانِ آگرہ سے خطاب کریں۔ مگر جناح نے نہایت شائستگی سے جواب دیا : "مَیں یہاں ایک کیس کے سلسلے میں آیا ہوں۔ میرے موکل نے مجھے اس کی فیس دی ہے۔ اگر آپ جلسہ کروانا چاہتے ہیں تو میرے واپس جانے کے بعد کسی دن جلسہ رکھ لیں اور مجھے بلا لیں۔ مَیں اپنے خرچہ پر آؤں گا ۔"
اگر بات کرتے ہیں خشیتِ الٰہی کی تو دیکھتے ہیں کہ جناح اکیلے میں اللہ کے آگے سجدہ ریز ہیں اور خدا کے خوف سے بے پناہ ، زارو قطار روئے جا رہے ہیں۔ اللہ کے آگے جوابدہ ہونے کا اس قدر خیال کہ ہر وقت ذہن میں خدا کو رکھتے اور کہتے "جب میں اللہ کے ہاں جاؤں تو وہ کہے ، اے محمد علی! تم مسلمان کے گھر میں پیدا ہوئے، مسلمان کی طرح جیئے اور مسلمان کی طرح مرے"۔
اللہ سے خوف کے ساتھ ساتھ جناح کو اللہ سے محبت بھی تھی اور عقیدت بھی۔ ایک بار کسی نے پوچھا کہ :
"مسٹر جناح آپ اتنی محنت کیوں کرتے ہیں؟"
جناح نے فورا جواب دیا: "اس لیے کہ مَیں چاہتا ہوں، جب مَیں اللہ کے حضور جاؤں تو اللہ مجھے فخر سے کہے، ویل ڈن مسٹر جناح"۔
ذہانت و دور اندیشی کی بات آتی ہے تو دیکھتے ہیں کہ جناح کو جھکانے کے لیے آپ کا عدسہ جان بوجھ کر گرا دیا جاتا ہے تا کہ جناح اسے اٹھانے کی خاطر ہی صحیح ایک بار ہندوؤں کے سامنے جھکیں مگر جناح اپنی جیب سے دوسرا عدسہ نکال کر تقریر کرنا شروع کر دیتے ہیں اور مجمع اس ذہانت و دوراندیشی پر داد دئیے بنا نہیں رہ پاتا۔
اگر بات کرتے ہیں حاضر دماغی کی تو جناح کو ایک ہندو نے لاجواب کرنے کے لیے بھرے مجمعے میں روک کر پوچھا کہ " مسٹر جناح، آپ کہتے ہیں کہ میرا عزم و ارادہ اور محنت و طاقت مسلمانوں کی قائم کرنے والی ریاست کے لیے ہے۔ مگر آپ نے اس ریاست کے لیے کوئی قربانی نہیں دی، ہمارے لیڈر گاندھی کو دیکھیے ہندوؤں کی خاطر کتنی بار جیل گئے، جب کہ آپ ایک بار بھی جیل نہیں گئے۔" جناح نے بہت سکون سے جواب دیا، "جیل میں مجرم جاتےہیں ۔مَیں مجرم نہیں ہوں"۔
الغرض جناح کی ساری زندگی اعلیٰ اخلاقی ضابطوں کا عکس ہے۔ زندگی کے ہر میدان میں آپ سچے اور کھرے انسان کے طور پر نظر آتے ہیں۔ آپ میں ہر وہ خوبی موجود تھی جو مومنوں کے لیڈر میں ہونی چاہیے۔شاید اسی لیے جناح کا انتخاب قائداعظم کے طور پر کیا گیا۔جوں جوں ہم جناح کی عادات و اطوار کو دیکھتے ہیں تو بحیثیت مسلمان ہمارے دلوں سے نکلتا ہے،" ویل ڈن مسٹر جناح ، بے شک تم ہر میدان میں اپنی خصوصیات کی وجہ سے نمایاں ہو۔"
کیا ہم میں ایسی خوبیاں پائی جاتی ہیں کہ ہم یہ امید رکھیں کہ اللہ اور اس کی مخلوق ہم سے کہے
"ویل ڈن مسٹر۔۔۔۔۔"