ولی نام کا اک شخص


۱۹۶۶ میں لگائے گئے ایک تخمینے کے مطابق اس وقت دیوان ولی کے ۶۵نسخے ایسے موجود تھے جن میں تاریخ کتابت درج تھی۔ اور ۵۳ یسے تھے جن میں تاریخ کتابت نہ تھی۔ ان کے علاوہ، ۳۳ایسی مخطوطہ بیاضیں موجود تھیں جن میں ولی کے کلام کا معتدبہ انتخاب درج تھا۔ نورالحسن ہاشمی، جو ہمارے زمانے کے سربرآوردہ ماہر ولی ہیں، کہتے ہیں کہ نسخوں اور بیاضوں کی یہ تعداد اگرچہ حیرت خیز ہے، لیکن مکمل پھر بھی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، متذکرہ بالا فہرست میں ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ کی لائبریری کے ایک ہی نسخے کا ذکر ہے، جب کہ وہاں دو ہیں۔ خدابخش لائبریری پٹنہ میں چار ہیں، رضالائبریری رام پور میں دو ہیں، اور یوپی کی ریاستی آرکائیوز لائبریری، الٰہ آباد میں بھی ایک ہے۔ متذکرہ بالا فہرست ان نسخ کا احاطہ نہیں کرتی۔ خود نورالحسن ہاشمی کے پاس تین نسخے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ذاتی کتب خانوں میں اور بھی ہوں گے۔ (شمیم حنفی نے مجھے بتایا کہ ان کے پاس بھی ایک انتہائی خوبصورت نسخہ ہے۔) اس طرح سچ پوچھیں تو دیوان ولی کے مخطوطوں اور بیاضوں کی مفصل وضاحتی فہرست کے لیے ایک کتاب درکار ہوگی۔ 1  ولی کی پیدائش غالباً ۱۶۶۵/۱۶۶۷ کی ہے اور ان کا انتقال اغلباً ۱۷۰۷/ ۱۷۰۸ میں ہوا۔ ان کے انتقال کی تاریخیں ۱۷۲۰/ ۱۷۲۵، حتی کہ ۱۷۳۵ تک تجویز کی گئی ہیں۔ لیکن ولی کی تاریخ وفات کا تعین ادبی تاریخ سے زیادہ ادبی سیاست کا معاملہ ہے۔ دہلی والوں (اور ان کے زیر اثر اردو ادب کے زیادہ تر مؤرخین) کے لیے ولی کے انتقال کی تاریخ وہی بہتر ہے جو ۱۷۰۰ کے بہت بعد کی ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ولی کے بارے میں جو افسانہ سب سے زیادہ مشہور ہے، وہ یہ ہے کہ شاہ گلشن نے، جو دہلی میں قیام پذیر تھے، ولی کو یہ مشورہ دیا کہ تم فارسی والوں کا طرز اور ان کے مضامین اختیار کرو۔ لہٰذا اس مبینہ مشورے کے جتنی دیر بعد تک ولی جیے ہوں، اتنا ہی اچھا ہے، کیوں کہ اگر وہ اس ’’مشورے‘‘ کے بعد جلد ہی راہی ملک عدم ہوگئے ہوں تو انہیں اس کا کوئی قابل لحاظ نفع اٹھانے کا وقت نہ ملا ہوگا۔ اور اگر ایسا ہے، تو ولی کی زیادہ تر شاعری اس ’’دہلوی/فارسی مشورے‘‘ کی مرہون منت نہیں۔ اس کے برخلاف، اگر اس ’’مشورے‘‘ کے بعد ولی بہت دن جیے، تو پھر ان کی شاعری پر اس ’’دہلوی/فارسی مشورے‘‘ کااحسان ثابت ہے۔ اور جس حدتک یہ ’’احسان‘‘ ثابت ہے، اسی حدتک ولی کے اپنے کارنامے کی توقیر کم ٹھہرے گی اور ولی کی شاعری میں ان کی اپنی طبیعت کی اپج کم دکھائی دے گی۔ 2  ظہیرالدین مدنی نے ولی کی تاریخ وفات ۴شعبان،، ۱۱۱۹ ہجری بتائی ہے اور لکھا ہے کہ یہ مطابق ہے ۱۷۰۹کے۔ 3 لیکن یہاں مدنی صاحب سے سہو ہوا ہے۔ ۴ شعبان، ۱۱۱۹ کے مطابق انگریزی تاریخ ۳۱ اکتوبر، ۱۷۰۷ ہے۔ مدنی صاحب نے ’’۴شعبان‘‘ کے لیے کوئی سند نہیں دی ہے۔ لیکن جہاں تک سوال سنہ کا ہے، تو اس کی بنیاد ایک مشہور (اور ظاہر ہے، متنازعہ فیہ) فارسی قطعۂ تاریخ ہے۔ اس سے ایک شخص کی تاریخ وفات (۱۱۱۹) نکلتی ہے جس کا نام ولی تھا۔ چونکہ مدنی صاحب نے وہ قطعہ خود بھی نقل کیا ہے، لہٰذا ہم یہ فرض کرسکتے ہیں کہ ان کی عبارت میں ’’۱۷۰۹‘‘ کتابت کی غلطی ہے، اور ان کی مراد ۱۷۰۷ ہی سے ہے۔ سنہ ۱۷۰۷/ ۱۷۰۸ کو ولی کا سال وفات قرار دینا اس لیے بھی ٹھیک معلوم ہوتا ہے کہ دیوان ولی کا قدیم ترین نسخہ جو اس وقت تک معلوم ہوسکا ہے، خدابخش لائبریری میں ہے۔ اس پر تاریخ ۲۶/ربیع الاول، ۱۱۲۰ہجری (مطابق ۱۵/جولائی، ۱۷۰۸) پڑی ہوئی ہے۔ اس مخطوطے میں وہ سارا کلام موجود ہے جو ولی کے نام سے منسوب ہے۔ یعنی ولی کا کوئی معلوم کلام اس مخطوطے کے باہر نہیں ہے۔ اس طرح یہ نتیجہ نکالنا غلط نہ ہوگا کہ ولی کی زندگی اس مخطوطے کے مکمل ہونے کے بعد بہت تھوڑی رہی ہوگی۔ یہ بات خود حیرت انگیز ہے کہ کسی شاعر کی موت کے تقریباً تین سو برس بعد بھی اس کے مخطوطے اتنی وافر تعداد میں محفوظ رہ جائیں۔ لیکن یہ بات تو اس سے زیادہ حیرت انگیز ہے کہ ایسے شاعر کا بہت سا کلام ۱۷۰۷/ ۱۷۰۸ کے بعد کہیں جمع نہ کیا گیا ہو اور وہ کسی بھی مخطوطے میں نہ ملتا ہو۔ لہٰذا ہم کم و بیش حتماً کہہ سکتے ہیں کہ ولی کا انتقال ۱۷۰۷/ ۱۷۰۸ میں ہوا۔ اور ان کی خوش قسمتی یا مقبولیت کی دلیل اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ قریب قریب تین سو برس کے سماجی تغیرات اور سیاسی آشوب کے باوجود ان کے کلام کے اتنے نسخے محفوظ ہیں۔ اور ان کی مقبولیت کی وجہ ان کے کلام کی خوبی ہی ہوسکتی ہے، کیوں کہ ولی کوئی صوفی نہ تھے کہ مریدین اور معتقدین ان کے اقوال اور تصانیف کو محبت اور عقیدت کے دامن میں جمع کرتے اور دست برد زمانہ سے ان کے بچے رہنے کی سبیلیں کرتے۔ اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ ان کے کلام میں مرد (اور شاید عورت) معشوقوں کا ذکر کثرت سے اور بڑے ذوق و شوق سے ہے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ دینی سے زیادہ دنیاوی شخص تھے۔ اور وہ اپنے زمانے کے آدمی تھے، کہ ان کا زمانہ وہ تھا جب عشق و عاشقی کی باتیں کھل کر کی جاتی تھیں اور ہماری ادبی تہذیب پر وسط انیسویں صدی کے وکٹوریائی ’’اخلاقی‘‘ اصولوں کا دباؤ نہ تھا۔ تو پھر ولی کون تھے اور کیا تھے؟ اور انہوں نے ایسا کیا کام انجام دیا کہ ہم انہیں شاعر الشعرا کہیں؟ پہلی بات تو یہ کہ ولی ایک شاعر اور ذی علم شخص تھے، دنیا کے معاملات میں بھی وہ بظاہر خوب منجھے ہوئے تھے۔ وہ اورنگ آباد کے تھے یا گجرات کے، یا دونوں جگہوں کے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ انہوں نے اردو شاعری کو ایک انقلاب سے دوچار کیا۔ گزشہ ڈھائی سو برس کی اردو ادبی تاریخ نگاری اس ایک بات پر متفق ہے کہ ولی کے کارنامے کی وقعت کو کم کرکے دکھایا جانا چاہیے، کیوں کہ وہ شمال کے لیے ’’غیرملکی‘‘ تھے، اور غیرملکی ہی نہیں، دکنی بھی تھے۔ دکنی ہوکر بھی انہوں نے دہلی والوں کو اردو شعر گوئی سکھائی، یہ بات دلی کے ’’مرزایان‘‘ کے لیے زہر سے بھی زیادہ کڑوی رہی ہوگی۔ یہ گھونٹ وہ پی تو گئے لیکن اس کا ذائقہ اپنے ذہن سے محو کرنے کی انہوں نے پوری کوشش کی، اور وہ کوشش اب تک کامیاب رہی ہے۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ دہلی کے بعض سب سے پرانے شعراے متقدمین، جنھوں نے ولی کا اثر اور رسوخ براہ راست محسوس کیا ہوگا، ان کے حلقہ بگوش تو ہیں لیکن ان کا اظہار ایسی زبان میں کرتے ہیں جس میں ایک عجب گومگو کی کیفیت ہے، آبرو شعر ہے ترا اعجازجوں ولی کا سخن کرامت ہے 4  ظفر احمد صدیقی نے اپنے مضمون ’’آبرو کا ایہام‘‘ (۱۷۲) میں آبرو کے ترجیع بند سے دو شعر اس بات کے ثبوت میں نقل کیے ہیں کہ آبرو نے ولی کی برتری کو بے تکلف و بے تامل تسلیم کیا ہے، ولی ریختے بیچ استاد ہے کہے آبرو کیونکہ اس کا جوابولیکن تتبع سیں کہنا سخنکرے فیض سوں فکر میں کامیاب 5  لیکن میرا خیال ہے ان اشعار کو ولی کے لیے بے تکلف و تامل اظہار عقیدت نہیں کہہ سکتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ’’تتبع‘‘ یہاں ’’محنت او رپوری چھان بین کے ساتھ تلاش‘‘ کے معنی میں زیادہ مناسب ہے نہ کہ ’’تقلید‘‘ کے معنی میں۔ سترہویں /اٹھارویں صدی کی اردو میں ’’تتبع‘‘ بہ معنی ’’تقلید‘‘ پوری طرح قائم نہ ہوا تھا۔ اور ’’محنت کے ساتھ تلاش‘‘ کے مفہوم پر مبنی استعمال بیسویں صدی میں بھی مل جاتا ہے۔ ’’اردو لغت، تاریخی اصول پر‘‘ میں ’’تتبع‘‘ کے معنی ’’تلاش، جستجو، چھان بین‘‘ لکھ کر ۱۹۰۶ کی ایک عبارت نقل کی ہے، ’’قرآن میں دنیا کے متعلق آیتوں کا تتبع کرو تو مدح اور ذم دونوں طرح کی آیتیں ملیں گی، بلکہ مدح کی زیادہ۔‘‘ 6 اگر آبرو نے ’’تتبع میں‘‘ لکھا ہوتا تو ’’تقلید‘‘ کا مفہوم نکلتا۔ لیکن انہوں نے ’’تتبع سیں‘‘ لکھا ہے، جس سے ’’محنت اور چھان بین کے ساتھ تلاش‘‘ کا مفہوم متبادر ہوتا ہے۔ پھر، دوسرے مصرعے میں ’’فیض سوں‘‘ کا فقرہ مبدء فیض کی طرف اشارہ کر رہا ہے، اور ’’فکر‘‘ کا لفظ شاعر کی اپنی اہلیت کی طرف۔ بدیں وجوہ میرے خیال میں یہاں آبرو ولی کا جواب لکھنے کے دعوے دار ہیں۔ اب ناجی کو سنیے، جو قبرستان میں کوئی شعر ناجی کا پڑھے جاکرکفن کو چاک کر کر آفریں کہتا ولی نکلے 7  یہاں تو صاف ولی کا جواب اور انہیں للکارنے کے انداز ہیں۔ ایسا ہی شعر ولی نے حسن شوقی کے بارے میں کہا ہے، جیسا کہ ہم ابھی دیکھیں گے (صفحہ۱۶۷) حاتم نے خم ٹھونکنے کے انداز نہیں اختیار کیے، لیکن دبی زبان سے دعواے برابری کر ہی دیا ہے، حاتم بھی اپنے دل کی تسلی کوں کم نہیں گرچہ ولی ولی ہے جہاں میں سخن کے بیچ 8  ’’دیوان زادہ‘‘ کے دیباچے میں البتہ حاتم نے ولی کو استاد تسلیم کیا۔ انہوں نے لکھا کہ بندہ ’’فارسی میں صائب کا مقلد ہے اور ریختہ میں ولی کو استاد مانتا ہے۔‘‘ 9 اس طرح صرف حاتم کے یہاں اپنے پیش رو کی عظمت کو تسلیم کرنے میں فیاضی نظر آتی ہے، اور یہ فیاضی ان کی سرشت میں تھی، ورنہ وہ اپنے دیوان میں بے تکلفی سے جگہ جگہ درج نہ کرتے کہ یہ غزل فلاں کی طرح میں ہے یا فلاں کے رنگ میں ہے۔ بعد کے اساتذہ، خاص کر میر او رقائم نے ولی کے کارنامے کی وقعت گھٹانے کی پوری کوشش کی اور شاہ سعداللہ گلشن والا ’’واقعہ‘‘ ایجاد کیا۔ میر اور قائم کے بیانات کاعطر حسب ذیل ہے، (۱) ولی سنہ ۱۷۰۰ میں دلی آئے۔ یہاں ان کی ملاقات شاہ گلشن سے ہوئی۔ شاہ موصوف نے ولی کو مشورہ دیا کہ فارسی طرز اور مضامین کو اپنے کلام میں داخل کرو۔ (۲) ولی نے یہ مشورہ قبول کیا اور اس پر نہایت کامیابی سے عمل بھی کیا۔ (۳) جب ولی کا دیوان محمد شاہ بادشاہ ہند کے دوم سنہ جلوس (جس کا آغاز اکتوبر ۱۷۲۰ میں ہوا) میں دہلی پہنچا تو ہر خاص و عام نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیااور اسی طرز میں شعر گوئی شروع کردی۔ بیان نمبر ایک کی بنیاد قائم کی اس اطلاع پر ہے کہ اورنگ زیب کے چوالیسویں سنہ جلوس میں ولی دہلی آئے۔ اورنگ زیب ۱۰۶۸/ ۱۶۵۸ میں تخت نشین ہوا۔ چوالیس ہجری برس ہمیں ۱۱۱۲ تک لاتے ہیں جس کا آغاز جولائی ۱۷۰۰ میں ہوا۔ چونکہ قائم کی اس خبر کے خلاف کوئی شواہد یا شکوک نہیں ہیں، اس لیے اسے مان لینے میں کچھ قباحت نہیں۔ بیان نمبر تین کو قبول کرنے کے لیے شہادت بہت مضبوط ہے، کیوں کہ اس کی تصدیق، بقول مصحفی، شاہ حاتم سے ہوتی ہے جو اس معاملے کے عینی شاہد تھے۔ مصحفی نے ’’تذکرۂ ہندی‘‘ (۱۷۹۴/ ۱۷۹۵) میں لکھا ہے، ایک دن (حاتم نے) اس فقیر (مصحفی) سے بیان کیا کہ فردوس آرام گاہ کے سنہ دوم میں ولی کا دیوان شاہجہاں آباد آیا، اور ان کے اشعار چھوٹے بڑے کی زبان پر جاری ہو گئے۔ 10  ’’فردوس آرام گاہ‘‘ سے مراد محمد شاہ ہے۔ اس نے ۳۰ستمبر ۱۷۱۹ کو تخت دہلی پر جلوس کیااور اپنے انتقال (۱۷۴۸) تک بادشاہ رہا۔ حاتم نے ولی کے بارے میں مصحفی سے جو کہا، اس سے زیادہ کوئی شاعر اپنے سے بڑی عمر والے شاعر کے لیے، خاص کر جب بزرگ شاعر ’’غیرملکی‘‘ ہو، بھلا اور کیا کہہ سکتا تھا۔ لیکن حاتم نے کوئی تذکرہ نہ لکھا۔ تذکرہ لکھا تو ان لوگوں نے، جو خود دہلی والے نہ تھے اور اسی لیے خود کو دلی والوں سے بڑھ کر دلی والا دکھانا چاہتے تھے۔ میر نے ’’نکات الشعرا‘‘ میں شاہ گلشن کی ذات میں ایک پردہ ڈھونڈلیا۔ شاہ گلشن اپنے وقت کے اہم صوفی لیکن اوسط درجے کے فارسی شاعر تھے۔ اردو وہ بہت کم کہتے تھے۔ ان کا وطن برہان پور تھا لیکن وہ دلی اکثر آتے جاتے تھے۔ برہان پور، جواب مدھیہ پردیش میں ہے، اس وقت گجرات کا حصہ تھا۔ قرائن ایسے ہیں کہ شاہ گلشن کی آمد و رفت احمد آباد میں بھی رہی ہو۔ میر نے لکھا، ولی۔۔۔ خاک اورنگ آباد کے ہیں۔ کہتے ہیں کہ شاہ جہاں آباد دہلی بھی آئے تھے۔ (یہاں وہ) میاں شاہ گلشن صاحب کی خدمت میں گئے اور کچھ اپنے شعر انہوں نے میاں صاحب کو سنائے۔ (اس پر) میاں صاحب نے فرمایا کہ یہ سب مضامین فارسی، کہ بیکار پڑے ہیں، انہیں اپنے ریختہ میں استعمال کرو۔ تم سے اس بات پر محاسبہ کون لے گا اور شاہ صاحب نے (ان کے کلام کی) تحسین اور توصیف کی۔ 11  ہمیں اس بات پر حیرت ہونا لازمی ہے کہ آخر میاں صاحب عرصۂ دراز تک اس بات کے منتظر کیوں رہے کہ ولی یا دہلی کے باہر والا کوئی آئے تو اسے اپنا قیمتی مشورہ دیں؟ دہلی اس زمانے میں شعرا کی ایک کثیر تعداد کا مستقر تھا بلکہ ہمیشہ ہی رہا ہے۔ دہلی کے شعرا اس وقت زیادہ تر فارسی گو تھے لیکن تھوڑا بہت ریختہ بھی کہہ لیتے تھے۔ جہاں تک سوال فارسی کا ہے تو وہاں اس وقت کئی ایسے تھے جو اس میدان میں شاہ گلشن سے کہیں آگے تھے۔ سترہویں صدی کے اواخر کی دلی میں شاہ گلشن کا شمار بڑے فارسی گویوں میں ہرگز نہ تھا۔ ریختہ بھی وہ بس یوں ہی کہہ لیا کرتے تھے۔ اس وقت میرزا عبدالقادر بیدل (۱۶۴۴ تا ۱۷۲۰) خود موجود تھے، پھر دوسرے نمبر پر محمد افضل سرخوش (۱۶۴۰ تا ۱۷۲۴) کو رکھا جاسکتا ہے۔ بیدل کی شہرت کا سورج اس وقت برج شرف میں تھااور وہ تھوڑی بہت ریختہ گوئی بھی کرتے تھے۔ شاہ گلشن اور بیدل کا رشتہ تو خوردو بزرگ کا تھا۔ اگر کوئی شخص کسی نئے شاعر کو شاہ گلشن سے منسوب مشورہ دینے کے لیے ہر طرح سے استحقاق و مجاز رکھتا تھا، تو وہ بیدل تھے نہ کہ شاہ گلشن۔ بے شک ولی جب دہلی آئے ہوں گے تو وہ شاہ گلشن کی بھی ملاقات کو گئے ہوں گے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ولی اور گلشن ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے رہے ہوں۔ شاہ گلشن کم سے کم ایک بار احمد آباد ضرور گئے تھے۔ ممکن ہے وہاں پر ولی ان سے ملے ہوں۔ فارسی کا ایک مختصر سا رسالہ ’’نورالمعرفت‘‘ نام کا ہے، اور اس کے مصنف کوئی ولی ہیں۔ وہ خود کو شاہ گلشن کا شاگرد بتاتے ہیں۔ یہ رسالہ ’’ہدایت بخش‘‘ نامی ایک مدرسے کی ثنا میں ہے۔ اس مدرسے کو اس زمانے کے گورنر گجرات شیخ الاسلام خاں نے ۱۶۹۹/ ۱۷۰۰ میں قائم کیا تھا۔ 12 اس رسالے کا قدیم ترین نسخہ چونکہ محض ۱۸۵۳/ ۱۸۵۴ کا ہے، لہٰذا اس بات میں شک ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ ہمارے ہی ولی ہیں یا کوئی اور، جنہوں نے یہ رسالہ لکھا ہے۔ اس معاملے میں فی الحال تو اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ بات سخت مستبعد ہے کہ شاہ گلشن کے دو شاگرد ہوں اور دونوں کا نام ولی ہو۔ یا پھر ہمارے شاہ گلشن کے وقتوں میں ایک اور شاہ گلشن ہوں، اور وہ بھی احمد آباد میں ہوں۔ نواب صدیق حسن خاں نے ’’شمع انجمن‘‘ میں لکھا ہے کہ ہمارے شاہ گلشن اور اسلام خان صوبہ دارگجرات میں قرابت داری تھی۔ 13 اگر یہ صحیح ہے تو پھر یہ گمان اور بھی قوی ہوجاتا ہے کہ شاہ گلشن نے اپنے شاگرد ولی سے اپنے دوست کے قائم کردہ مدرسے کی تاریخ تعمیر لکھوائی ہو۔ ظہیر الدین مدنی تو ولی اور گلشن کی شاگردی استادی میں کوئی شک نہیں کرتے، انہوں نے ولی کو سیدھا سیدھا شاگرد شاہ گلشن لکھا ہے اور اس بات کا ذکر تک نہیں کیا ہے کہ اس امر میں کسی کو کوئی شک بھی ہے۔ مدنی کا خیال ہے کہ گلشن اور ولی کی استادی شاگردی فارسی کے حوالے سے ہوگی۔ (میرا خیال ہے اس زمانے میں فن شعر میں شاگردی استادی کا جھنجھٹ نہ تھا۔ ولی نے گلشن سے کوئی اور علم حاصل کیا ہوگا لیکن وہ الگ بحث ہے۔) گلشن اور ولی کے مراسم احمد آباد کے بھی ہوسکتے ہیں اور برہان پور کے بھی۔ 14 نورالحسن ہاشمی کی رائے میں ’’داخلی شواہد‘‘ کی بناپر ولی کو ’’نور المعرفت‘‘ کا مصنف قرار دیا جاسکتا ہے۔ 15 مجموعی حیثیت سے، ولی اور گلشن کا آپس میں ملاقاتی ہونا، اور ۱۷۰۰ کے پہلے سے ہونا، اس قدر قوی امکان رکھتا ہے کہ ولی اور گلشن کی دہلی میں ملاقات کے بارے میں شہرت یافتہ کہانیوں پر سخت شک لازم آتا ہے۔ میں نے ’’کہانیوں‘‘ کا لفظ جان بوجھ کر استعمال کیا ہے، کیوں کہ ولی اور گلشن کی دہلی میں ملاقات کے بارے میں ایک اور بیان بھی ہے، اور وہ میر کے بیان سے بھی زیادہ ناقابل وثوق ہے۔ قائم نے ’’مخزن نکات‘‘ کی تالیف غالباً ۱۷۵۴ میں مکمل کی۔ اس کا امکان ہے کہ سنہ آغاز تالیف ۱۷۴۴ ہو۔ بہرحال، ولی کی آمد دہلی کے وقت میر اور قائم دونوں ہی ناپید تھے، لہٰذا ولی کے بارے میں ایک کی معلومات دوسرے سے زیادہ نہ تھی۔ دونوں نے سنی سنائی پر بھروسا کیا ہوگا۔ قائم اس بات کو سمجھتے ہیں کہ یہ بات آسانی سے گلے اترنے والی نہیں کہ ولی کو شاہ گلشن نے ایسا کوئی مشورہ دیا ہو کہ تم فارسی پر یلغار کرو، کون پوچھتا ہے۔ ولی اس وقت ۳۳ یا ۳۵ کی (اس زمانے کے معیارسے) پختہ عمر کو پہنچ چکے تھے۔ یہ بات قرین قیاس نہیں کہ ایسی عمر والے ایک اجنبی شخص کو شاہ گلشن چچا بھتیجے کی قسم کا مشورہ بیٹھے بٹھائے دے ڈالیں۔ لہٰذا قائم نے یہ افسانہ تراشا کہ شاہ صاحب سے اس تاریخی ملاقات کے وقت ولی نے شعرگوئی شروع نہ کی تھی۔ قائم کہتے ہیں، شاہ ولی اللہ، مشہور شاعر ہیں۔۔۔ بادشاہ عالم گیر کے چوالیسویں سال جلوس میں ایک سید پسر ابوالمعالی کے ہمراہ، جس کے ساتھ ان کو شیفتگی تھی، جہان آباد آئے۔ کبھی کبھی فارسی زبان میں دو تین شعر اس کے حسن و جمال کی تعریف میں کہہ لیتے تھے۔ یہاں آکر جب حضرت شیخ سعداللہ گلشن کی خدمت میں باریاب ہوئے تو انہوں نے ریختہ گوئی کے لیے حکم دیا، اور تعلیم کی غرض سے یہ مطلع کہہ کر ان کے حوالے کیا، خوبی اعجاز حسن یار اگر افشا کروں بے تکلف صفحۂ کاغذ ید بیضا کروں الغرض حضرت کی زبان کا فیض تھا کہ ولی کے کلام نے اتنا حسن قبول پایا کہ ان کے دیوان کا ہر شعر مطلع آفتاب سے بھی روشن ہے۔ اور ریختہ اس قدر فصاحت و بلاغت سے کہا کہ اس دور کے اکثر اساتذہ ریختہ میں کہنے لگے۔ 16  یہ قصہ کچھ زیادہ وثوق انگیز ہوسکتا تھا لیکن ہم جانتے ہیں کہ ولی جب دہلی آئے ہیں تو وہ باقاعدہ شاعر تھے اور انہیں خود پر اس قدر اعتماد تھا کہ وہ ناصر علی سرہندی جیسے فارسی کے استاد کو للکار سکتے تھے۔ یہ اعتماد بر خود غلط ہونے کے باعث ہو یا خلقت کے اعتراف کمال پر مبنی ہو، لیکن سترہویں صدی کے ماحول میں ایسا اعتماد کسی نوسکھیے، کسی اناڑی کو نہیں ہوسکتا۔ (ہمارے زمانے میں تو سب کچھ ممکن ہے۔) ظاہر ہے کہ ولی کے اشعار کی کوئی تاریخ متعین نہیں ہوسکتی، لیکن وہ اشعار، جن میں ان لوگوں کا تذکرہ ہو، جو ۱۷۰۰ کے پہلے اس دنیا سے جاچکے تھے، اور وہ تذکرہ زندوں کی ضمن میں ہو، تو وہ اشعار بلاشبہ ۱۷۰۰ سے پہلے کے ٹھہریں گے۔ ناصر علی سرہندی کا انتقال ۱۶۹۶ میں ہوا، اور ولی کے مندرجہ ذیل مشہور شعر سے صاف ظاہر ہے کہ وہ ناصر علی کی زندگی میں کہا گیا تھا، پڑے سن کر اچھل جیوں مصرع برقاگر مصرع لکھوں ناصر علی کوں 17  شفیق اورنگ آبادی اور ولی میں ہم وطنی کا تعلق تھا لیکن اگر یہ نہ بھی ہوتا تو دکنی ہونے کی وجہ سے ولی کے بارے میں انہیں اوروں سے زیادہ معلوم رہا ہوگا۔ شفیق نے شاہ گلشن کا کوئی تذکرہ ولی کے ترجمے میں نہیں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں، ان (ولی کی پیدائش اورنگ آباد میں ہوئی۔ چونکہ زیادہ تر درگاہ حضرت شاہ وجیہ الدین واقع گجرات میں رہ کر تعلیم حاصل کی اور گڑھ کے متصل نیلی گنبد میں مدفون ہوئے، اس لیے لوگوں نے غلطی سے ان کو گجرات سے منسوب کر دیا۔۔۔ لوگ کہتے ہیں سورت آئے تھے اور کچھ دنوں قیام کیا تھا۔ فریضہ حج بھی ادا کیا تھا۔ 18  میر حسن نے صرف اتنا لکھا ہے کہ ولی نے ’’شاہ گلشن قدس اللہ سرہٗ کی خدمت میں استفادہ حاصل کیا۔ ان بزرگوار کی توجہ سے اعلیٰ وادنیٰ میں مقبول ہوگئے۔‘‘ 19 ابوالحسن امراللہ الہ آبادی نے اپنے ’’تذکرۂ مسرت افزا‘‘ میں کم و بیش صاف لفظوں میں میر کی روایت کو غلط ٹھہرایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ (ولی) شاہجہاں آباد بھی آئے اور شاہ گلشن کی خدمت میں ارادت رکھتے تھے۔ ایک دن کچھ اشعار ان کے سامنے پڑھے اور ان کو محظوظ کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ فارسی مضامین یوں ہی بے کار پڑے ہیں، تم ان کو ریختہ میں استعمال کرو، کون تم سے محاسبہ کرے گا۔ اس قول کی سچائی اور جھوٹ راوی کی گردن پر۔ 20  یہ بات بھی بالکل بعید از قیاس ہے کہ ولی کی شاعری کسی نہ کسی طور پر شاہ گلشن کی مثال یا تعلیم کی مرہون منت ہے۔ لیکن ولی ازخود ولی دکنی نہ بن گئے تھے۔ ہر بڑے شاعر کا کوئی نہ کوئی پیش رو ہوتا ہے اور ولی نے اپنا پیش رو حسن شوقی (وفات ۱۶۳۳؟) کو مانا ہے۔ علاوہ ازیں، ولی نے گجری اور دکنی دونوں ادبی تہذیبوں اور روایتوں سے کسب فیض کیا تھا۔ شوقی پہلے احمد نگر اور پھر گولکنڈہ میں تھے لیکن ان کی شہرت دور دور تک تھی اور تادیر قائم رہی۔ قریب کے لوگوں میں ابن نشاطی، اعظم بیجاپوری اور سب سے بڑھ کر ملا نصرتی نے انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ بعد کے لوگوں میں ولی کے علاوہ سید اشرف بیابانی ہیں، جن کا نہایت عمدہ شعر ہے، سارے لوگاں کتے ہیں اشرف کے شعر سن کرکیا پھر جیا ہے شوقی یاراں مگر دکن میں 21  شوقی کے کلام کی نمایاں خوبیاں پیکروں، خاص کر لمسی او ربصری پیکروں کی فراوانی اور ہر شے کو ایک حسی رنگ دینے کی ادا ہے۔ اسے انگریزی میں Sensuousness کہہ سکتے ہیں۔ اور یہ صفت ولی میں بھی ہے اور بہ درجۂ اتم ہے۔ حسن شوقی کی زبان معاصر دکنی ادیبوں بلکہ نصرتی جیسے بعد کے ادیبوں کی بہ نسبت سنسکرت تت سم الفاظ اور تیلگو/کنڑ الفاظ سے خالی ہے۔ اردو میں جنوب کی زبانوں کے نفوذ کی انتہائی مثال تو فخردین نظامی کا کلام ہے اور خاصی کٹھن مثال کے لیے نصرتی کو پیش کرسکتے ہیں۔ شوقی کے کلام میں فارسیت اتنی تو نہیں جتنی ولی کے یہاں ہے، لیکن دکنی شعرا کے اوسط سے کچھ زیادہ ہے۔ ولی کی عام زبان کو ’’اورنگ آبادی اردو‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ (اس کی تفصیل آگے آئے گی۔) ان کا زیادہ تر دکنی عنصر سنسکرت تدبھو پر مشتمل ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اورنگ زیب اور اس کے لشکران جرار نے اورنگ آباد کو اپنا مستقر بنایا تو دکنی/ہندی/ہندوی کا ایک نیا طرز اورنگ آباد اور اس کے اطراف میں پرورش پانے لگا۔ اورنگ آباد دکن میں اورنگ زیب کی موجودگی اس کی تخت نشینی سے قبل کی ہے اور ان اطراف ملک میں اس کی مہمیں اس کے پچاس سالہ عہد سلطنت (۱۶۵۸ تا ۱۷۰۷) میں مسلسل جاری رہیں۔ ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کہتے ہیں، یہ بات صاف دکھائی دینے لگتی ہے کہ دسویں صدی ہجری (۱۵۹۰/ ۱۵۹۱) کے آخر تک دکن میں ہندوستانی زبان کی دوصورتیں ہوگئی تھیں، ایک وہ جو دولت آباد کے علاقے سے باہر دکن کے دراوڑی علاقوں میں رائج تھی اور جسے دلی کی زبان کے ساتھ تعلقات کو تازہ کرنے کے موقع بہت کم ملے اور جس میں ایک طرف گولکنڈہ کے قطب شاہیوں اور دوسری طرف صوفیوں نے ایک خاص دکنی ادب پیدا کردیا تھا۔ دوسری صورت زبان کی وہ صورت تھی جو دولت آباد اور اس کے نواح میں رائج تھی۔ گیارہویں صدی کے آغاز میں مغلوں نے دکن کا رخ کیا اور اس (کذا) کا اثر تیزی سے بڑھتا گیا۔ انہوں نے بھی اپنا مرکز دولت آباد ہی کو بنایااور اورنگ زیب نے دولت آباد سے چند میل ہٹ کر اورنگ آباد بسایا۔ شاہ جہاں اور اورنگ زیب کے زمانے میں لوگ دلی سے جوق جوق اورنگ آباد آئے اور اپنے ساتھ دلی کی اردوے معلیٰ ساتھ لائے، جس نے دولت آبادی علاقے کی زبان کو تازگی بخشی اور دلی کی نئی زبان کو اورنگ آبادیوں نے شوق سے اختیار کیا، جس پر وہ آج تک فخر کرتے ہیں۔ یہی وہ زبان ہے جسے ہم ولی کے کلام میں پاتے ہیں اور سوا چند بہت خفیف اختلافات کے، یہ وہی زبان ہے جو ولی کے زمانے میں دلی میں بولی جاتی تھی۔ 22  ممکن ہے ڈاکٹر عبدالستار صدیقی نے بات کو ذرا زیادہ تعمیم سے بیان کردیا ہولیکن بنیادی حقیقت قطعاً ویسی ہی ہے جیسی کہ انہوں نے اوپر لکھی ہے۔ ’’سخت‘‘ دکنی اور اورنگ آبادی دکنی کے فرق پر نصرتی کی زبان پر شفیق اورنگ آبادی کا قول نقل کرنے کے قابل ہے۔ نصرتی ’’نت نئے مضمون پیدا کرتے ہیں۔ اگرچہ دکنی زبان کی وجہ سے الفاظ گراں معلوم ہوتے ہیں، پھر بھی لطف سے خالی نہیں۔‘‘ حسن شوقی کی زبان اورنگ آبادی سامعہ پر نسبتاً نرم پڑتی ہے۔ باباے اردو مولوی عبدالحق، جنہوں نے زندگی کا خاصا حصہ اورنگ آباد میں گزارا، وہاں کی اردو کے بارے میں لکھتے ہیں، اورنگ زیب عالم گیر کی ایک عمر دکن میں بسر ہوئی۔۔۔ اس کا مستقرر اورنگ آباد۔۔۔ اور کئی لاکھ فوج جو اس کے ساتھ تھی، وہیں مقیم تھی۔ یہ شمالی ہند کا لشکر اپنے ساتھ اپنی زبان بھی لایا تھا۔ اس دور میں اورنگ آباد کی تقریباً پوری آبادی شمالی ہند کی آبادی تھی اور سارا رنگ ڈھنگ دلی کانظر آتا تھا۔۔۔ جب اورنگ آباد کی بجائے حیدرآباد پایۂ تخت آصفی قرار پایا۔۔۔ تو ترک مقام، تغیر حالات و ماحول اور مرور زمانہ سے زبان میں بھی فرق آگیا۔ 23  لہٰذا ولی کے زمانے کی اورنگ آبادی اردو (اور غالباً احمد آبادی اردو بھی) دہلی کی زبان سے بہت مختلف نہ تھی۔ دہلی میں ولی کی مقبولیت کی راہ اس وجہ سے بھی آسان ہوئی۔ پیش روؤں میں حسن شوقی واحد دکنی شاعر ہیں بلکہ واحد اردو شاعر ہیں جن کا ذکر ولی نے کیا ہے، برجا ہے اگر جگ میں ولی پھر کے دجے باررکھ شوق مرے شعر کا شوقی حسن آوے 24  ولی کے ذہن میں ان کا اپنا پیکر کیسا تھا اور ریختہ/ہندی شعرا کے بارے میں ان کا خیال کیا تھا، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ انہوں نے فارسی کے بڑے شعرا کو اپنا حریف یا اپنے سے کمتر قرار دیا ہے۔ اردو کے شعرا میں وہ صرف حسن شوقی کو لائق اعتنا سمجھتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بعد نمایاں ہونے والے دکنی شعرا میں سے دو (فراقی بے جاپوری، ۱۶۸۵ تا ۱۷۳۲ اور فقیر اللہ آزاد، وفات، ۱۷۳۵/ ۱۷۳۶) کا ذکر کیا ہے۔ 25 بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ فراقی کا نام انہوں نے کچھ اس طرح لیا ہے کہ اس سے ایک خفیف سا جذبۂ رشک و آشفتگی بھی جھلکتا ہے۔ ولی کہتے ہیں، ترے اشعار ایسے نئیں فراقیکہ جن پر رشک آوے گا ولی کوں یہ شعر اسی غزل میں ہے (کلیات، ص۱۹۵) جس میں ولی نے ناصر علی سرہندی کو چنوتی دی ہے۔ علاوہ بریں، ولی نے فقیر اللہ آزاد اور فراقی کا ایک ایک مصرع اپنے دوشعروں میں کھپایا بھی ہے۔ ان باتوں سے میں یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ ولی کی نظر میں دہلوی ہندی/ریختہ گویوں کی کوئی اہمیت نہ تھی، اور ان کے علی الرغم فراقی بے جاپوری، فقیر اللہ آزاد، جیسے شعرا کا ذکر کرکے وہ گویا دہلوی شعرا کو علامتی طور پر مسترد کر رہے ہیں۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ اگر ولی کا انتقال ۱۷۰۷/ ۱۷۰۸ میں ہوا، جیسا کہ مجھے یقین ہے، تو انہیں دہلوی ہندی/ ریختہ گویوں کو پڑھنے سننے کا کچھ خاص موقع بھی نہ ملا ہوگا۔ کیوں کہ دہلی ریختہ گوئی تو ۱۷۱۰کے بعد ہی چمکی ہوگی جب آبرو اور ناجی کا فن پختگی کی منزل میں پہنچا ہوگا۔ ایک غزل میں انہوں نے معشوق کی صفت میں پیش رو شعرا کے نام بطور صنعت کھپائے ہیں۔ ساری غزل میں شوقی کو چھوڑ کر اردو کے صرف ایک شاعر کا نام ہے اور وہ بھی شاہ گلشن، جنہیں بہ تکلف ہی اردو کا شاعر کہا جاسکتا ہے۔ اغلب یہ ہے کہ شاہ گلشن کا نام فارسی کے شاعر کی حیثیت سے ہویا پھر اظہار عقیدت کے لیے، اور تبرک کے طور پر ہو۔ غزل چونکہ بجاے خود پرلطف ہے اس لیے چند شعر نقل کرتا ہوں، ترامکھ مشرقی حسن انوری جلوہ جمالی ہے نین جامی جبیں فردوسی و ابرو ہلالی ہے تو ہی ہے خسر و روشن ضمیر و صائب وشوکتترے ابرو یہ مجھ بیدل کوں طغراے وصالی ہے ولی تجھ قد و ابرو کا ہوا ہے شوقی و مائلتو ہر اک بیت عالی ہور ہراک مصرع خیالی ہے 26  اس غزل میں حسب ذیل شعرا کے نام آئے ہیں: مشرقی(مشہدی)، انوری (ابیوردی)، (شیخ) جمالی (کنبوہ دہلوی)، (عبدالرحمن) جامی، فردوسی (طوسی)، ہلالی (چغتائی)، (امام الدین) ریاضی، (شاہ سعد اللہ) گلشن، (میرزا محمد علی) دانا، (ناصر علی) سرہندی، (میرزا ہاشم) دل، (میر معز) فطرت، فصیحی (ہروی)، (میرعبدالصمد) سخن، زلالی (خوانساری)، فیضی، (محمد جان) قدسی، طالب (آملی)، (ملا) شیدا، کمال (اسمٰعیل اصفہانی)، بدر (اصفہانی)، اہلی (شیرازی)، غزالی (مشہدی)، امیر خسرو، میر روشن ضمیر (المتخلص بہ ضمیر)، (میر ہادی) روشن، صائب (تبریزی)، شوکت (بخاری)، (میرزا) بیدل، (ملا) طغرا، وصالی (غالباً) دہلوی، (حسن) شوقی، (نواب قطب الدین) مائل (دہلوی)، (نعمت خان) عالی، خیالی (کاشی) ولی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے قطعی طور پر اور ہمیشہ کے لیے ثابت کردیا کہ گجری اور دکنی کی طرح ہندی/ریختہ میں بھی بڑی شاعری کی صلاحیت ہے۔ ولی نے یہ بھی دکھادیا کہ ریختہ/ہندی میں یہ بھی قو ت ہے کہ وہ سبک ہندی کی فارسی شاعری پر فوقیت لے جاسکتی ہے یا کم سے کم اس کے شانہ بہ شانہ تو چل ہی سکتی ہے۔ تشبیہ اور پیکر کی نفاست ہو یا استعارے کی وسعت، تجرید، اور پیچیدگی، مضمون آفرینی ہو یا معنی آفرینی، ہندی/ریختہ فارسی سے ہرگز کم نہیں۔ ان کا دوسرا بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے اردو کے شعرا کو ایک نئی شعریات کے احساس اور وجود سے آشنا کیا۔ اس شعریات میں سنسکرت، سبک ہندی، اور دکنی، تینوں کے دھارے آکر ملتے ہیں، راہ مضمون تازہ بند نہیں تا قیامت کھلا ہے باب سخنجلوہ پیرا ہو شاہد معنیتا زباں سوں اٹھے نقاب سخنہے سخن جگ منیں عدیم المثلجز سخن نئیں دوجا جواب سخنلفظ رنگیں ہے مطلع رنگیں نور معنی ہے آفتاب سخنولی ارباب معنی میں اسے ہے عرش کا رتبہپری زاد معانی کوں جو کوئی کرسی پہ بٹھلاوے مجھ کو روشن دلاں نے دی ہے خبرکہ سخن کا چراغ روشن ہے اے ولی صاحب کی زبانبزم معنی میں شمع روشن ہے 27  حواشی(۱) ولی دکنی، ’’کلیات ولی‘‘، مرتبہ نورالحسن ہاشمی، لاہور، الوقار پبلی کیشنز، ۱۹۹۶ (اول اشاعت ۱۹۴۵)، ص ص ۱۳ تا ۱۴) ولی کے مخطوطات کی فہرست محمد اکرام چغتائی نے ’’اردو‘‘، کراچی کی اشاعت بابت جولائی۔ اکتوبر ۱۹۶۶ میں شائع کی تھی۔ (۲) جمیل جالبی نے طویل بحث کے ذریعے یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ ولی کا انتقال ۱۷۲۰/ ۱۷۲۵ کے دوران ہوا ہوگا۔ ان کے بعض دلائل حسب ذیل ہیں، اگر شاہ گلشن سے ملاقات کے بعد ولی اتنی جلد مرگئے تو انہوں نے اتنا سارا کلام اتنی کم مدت میں کیسے اکٹھا کرلیا؟ ولی کے بہت سے ساتھی، حتی کہ خود شاہ گلشن، اٹھارویں صدی میں کئی سال تک جیے، پھر ولی ان کے پہلے کیسے مرسکتے تھے؟ وغیرہ۔ ملاحظہ ہو، جمیل جالبی، ’’تاریخ‘‘، جلد اول، ص ص ۵۳۴ تا ۵۳۹۔ ولی کے خلاف تعصب کی ایک دلچسپ مثال حبیب الرحمن الصدیقی میرٹھی کے مکتوبات میں ملتی ہے۔ حبیب الرحمن الصدیقی بڑے ذی علم شخص اور میرٹھ کے ایک قدیم اور ممتاز گھرانے کے فرد تھے۔ ایک خط میں وہ لکھتے ہیں، ’’ولی کو بہت boost کیا گیا ہے، اسے debunk کرنا ہے۔‘‘ (۱۵/اگست ۱۹۶۷، بنام ذکا صدیقی) ایک اور خط میں ہے، ’’ولی نے دلی میں آکر اردو سیکھی نہ کہ یہاں والوں کو سکھائی۔‘‘ (۲۹/اگست ۱۹۶۷، بنام ذکا صدیقی) واضح رہے کہ حبیب الرحمن الصدیقی اپنی زبان کو دہلوی قرار دیتے تھے۔ ایک اور خط میں لکھتے ہیں، ’’میری مشکل یہ ہے کہ دہلوی بھول گیا، دکنی اچھی طرح آئی نہیں۔‘‘ (۱۹/اکتوبر ۱۹۶۷، بنام ذکا صدیقی) ۔ ملاحظہ ہو، ’’مکاتیب حبیب‘‘ از حبیب الرحمن الصدیقی میرٹھی، امراوتی، ۱۹۹۸، ص ص ۱۵۳، ۱۵۵، ۱۶۰۔ عصمت جاوید نے جمیل جالبی کے استدلال رد کیے ہیں، اگرچہ خود عصمت صاحب کا اسلوب ذرا ژولیدہ ہے۔ ملاحظہ ہو ان کا مضمون، ’’ولی کا سال وفات، ایک شبہ اور اس کا ازالہ‘‘، مطبوعہ ’’اقبال‘‘، لاہور، ادبیات اردو نمبر، بابت اپریل۔ جولائی ۱۹۹۲۔ (۳) ظہیر الدین مدنی، ’’سخن وران گجرات‘‘، ص۸۶۔ (۴) شاہ مبارک آبرو، ’’دیوان آبرو‘‘، مرتبہ محمد حسن، نئی دہلی، ترقی اردو بیورو، حکومت ہند، ۱۹۹۰، ص۲۷۱۔ (۵) ملاحظہ ہو ظفر احمد صدیقی، ’’آبرو کا ایہام‘‘ مطبوعہ ’’شب خون‘‘ الٰہ آباد، نمبر ۱۸۸، بابت نومبر ۱۹۹۵۔ (۶) ملاحظہ ہو، اردو لغت بورڈ کراچی کا ’’اردو لغت، تاریخی اصول پر‘‘، جلد چہارم، کراچی، ۱۹۸۲، ص۹۶۱۔ (۷) محمد شاکر ناجی، ’’دیوان شاکر ناجی‘‘، مرتبہ افتخار بیگم صدیقی، دہلی، انجمن ترقی اردو (ہند)، ۱۹۸۹، ص۳۴۹۔ (۸) شاہ حاتم، ’’انتخاب حاتم‘‘، مرتبہ عبدالحق، دہلی، دہلی اردو اکیڈمی، ۱۹۹۱، ص۵۸۔ (۹) شاہ حاتم، ’’دیباچہ‘‘، مشمولۂ دیوان زادہ‘‘، مرتبہ غلام حسین ذوالفقار، لاہور مجلس ترقی ادب، ۱۹۷۵، ص۳۹۔ (۱۰) شیخ غلام ہمدانی مصحفی، ’’تذکرۂ ہندی‘‘، مرتبہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو، ۱۹۳۳، ص۸۰۔ (۱۱) میر، ’’نکات الشعراء‘‘، ص۹۱۔ (۱۲) ولی، ’’کلیات‘‘، ص۴۰۔ (۱۳) نواب صدیق حسن خان، ’’شمع انجمن‘‘، ص۴۰۷۔ (۱۴) ظہیر الدین مدنی، ’’سخنوران گجرات‘‘، ص ص ۸۶ تا ۸۷۔ (۱۵) ولی، ’’کلیات‘‘، ص۴۱۔ (۱۶) قائم چاند پوری، ’’مخزن نکات‘‘، تلخیص و اردو ترجمہ از عطا کاکوی، (’’تین تذکرے‘‘ )، پٹنہ، عظیم الشان بک ڈپو، ۱۹۶۸، ص۱۰۵۔ ’’کلیات ولی‘‘ مرتبہ نورالحسن ہاشمی (ص۱۸۲) میں ’’افشا’’کی جگہ ’’انشا‘‘ ہے، اور یہی درست ہے۔ (۱۷) ولی، ’’کلیات‘‘، ص۱۹۵۔ (۱۸) شفیق اورنگ آبادی، ’’چمنستان شعرا‘‘، تلخیص و اردو ترجمہ از عطاکاکوی، پٹنہ، عظیم الشان بک ڈپو، ۱۹۶۸، ص ص ۸۲ تا ۸۴۔ (۱۹) میر حسن، ’’تذکرۂ شعرا‘‘، ص۲۰۴۔ بعض حضرات ’’استفادہ حاصل کیا‘‘ پر معترض ہوں گے، لیکن میر حسن نے ایسا ہی لکھا ہے، ان کے الفاظ ہیں، ’’استفادہ حاصل نمودہ۔‘‘ (۲۰) ابوالحسن امراللہ الٰہ آبادی، ’’تذکرۂ مسرت افزا‘‘، تلخیص و اردو ترجمہ، عطا کاکوی، پٹنہ، عظیم الشان بک ڈپو، ۱۹۶۸، ص۱۲۳۔ (۲۱) جمیل جالبی، ’’تاریخ‘‘، جلد اول، ص ص۲۹۵ تا ۲۹۶۔ (۲۲) پرفیسر عبدالستار صدیقی نے پروفیسر نورالحسن ہاشمی کے مرتب کردہ کلیات ولی (۱۹۶۴) پر ایک دیباچہ لکھا تھا۔ اسے ۱۹۹۶ والے ایڈیشن میں دوبارہ چھاپا گیا ہے۔ میں نے یہ اقتباس وہیں سے لیا ہے، ص ص ۶۱ تا ۶۲۔ (۲۳) شفیق اورنگ آبادی، ’’چمنستان شعرا‘‘، ص۸۰، اور تمنا اورنگ آبادی، ’’گل عجائب‘‘ (۱۷۸۰/ ۱۷۸۱)، مرتبہ مولوی عبدالحق، ص واؤ تا زے۔ (۲۴) ولی، ’’کلیات‘‘، ص۲۴۳۔ (۲۵) ولی، ’’کلیات‘‘، ص ص ۱۰۸، ۱۹۵، اور ۲۴۴۔ (۲۶) ولی، ’’کلیات‘‘، ص۲۹۲۔ (۲۷) ولی، ’’کلیات‘‘، ص ص ۱۷۷، ۲۴۶، ۲۶۸، ۲۸۷۔