وہ یاد کر بھی رہا ہو تو فائدہ کیا ہے

وہ یاد کر بھی رہا ہو تو فائدہ کیا ہے
یہ دل اجاڑ پڑا ہے اسے ملا کیا ہے


بہت دنوں سے یہ دل یوں ہی رو رہا ہے اور
بتا رہا ہی نہیں ہے اسے ہوا کیا ہے


ذرا سی دیر اترنے دے اپنی آنکھوں میں
ذرا یہ دیکھنے تو دے یہ راستہ کیا ہے


اک اور بھوک تھی جس نے مجھے فقیر کیا
وگرنہ پاس ترے حسن کے سوا کیا ہے


میں اپنے آپ سے کم بھی ہوں اور زیادہ بھی
وہ جانتا بھی ہے مجھ کو تو جانتا کیا ہے


یہ درد خواب ہے اس کو بھی چکھ کے دیکھ ہی لوں
پتہ کہیں تو چلے خواب میں مزا کیا ہے