وہ واہمہ ہے کہاں یہ اصول جانا تھا

وہ واہمہ ہے کہاں یہ اصول جانا تھا
ملے تھے اس سے تو پھر اس کو بھول جانا تھا


گنوا دی عمر کسی ربط رائیگاں کے لئے
ہمیں تو ٹوٹتے رشتوں کو بھول جانا تھا


نہ کام آئی تب و تاب فکر و فن میری
وہ آئنہ ہوں جسے سب نے دھول جانا تھا


وہ خوشبوؤں کے مسافر تھے ساتھ چلتے کیا
مجھے تو صورت گرد ملول جانا تھا


وہ سادہ لوح ہمارے سوا کوئی نہ تھا آہؔ
کہ جس نے گل شدہ داغوں کو بھول جانا تھا