وہ وعدہ استوار کبھی ہے کبھی نہیں

وہ وعدہ استوار کبھی ہے کبھی نہیں
ہم کو بھی اعتبار کبھی ہے کبھی نہیں


یہ دہر سازگار کبھی ہے کبھی نہیں
امید ہم کنار کبھی ہے کبھی نہیں


ہم رہرو قدیم ہیں اور جانتے ہیں خوب
ہموار رہ گزار کبھی ہے کبھی نہیں


اس کو عیاں کہیں کہ نہاں یا کچھ اور ہی
جو راز آشکار کبھی ہے کبھی نہیں


ہو دوست سے توقع لطف دوام کیا
جب دل پہ اختیار کبھی ہے کبھی نہیں


ظالم تمام عمر رہا دل کے آس پاس
اک غم جو خوش گوار کبھی ہے کبھی نہیں


محرومؔ طبع شاعر فطرت نگر رواں
مانند جوئبار کبھی ہے کبھی نہیں