وہ ان دنوں تو ہمارا تھا لیکن اب کیا ہے

وہ ان دنوں تو ہمارا تھا لیکن اب کیا ہے
پھر اس سے آج وہی رنج بے سبب کیا ہے


تم اس کا وار بچانے کی فکر میں کیوں ہو
وہ جانتا ہے مسیحائیوں کا ڈھب کیا ہے


دبیز کہر ہے یا نرم دھوپ کی چادر
خبر نہیں ترے بعد اے غبار شب کیا ہے


دکھا رہا ہے کسے وقت ان گنت منظر
اگر میں کچھ بھی نہیں ہوں تو پھر یہ سب کیا ہے


اب اس قدر بھی سکوں مت دکھا بچھڑتے ہوئے
وہ پھر تجھے نہ کبھی مل سکے عجب کیا ہے


میں اپنے چہرے سے کس طرح یہ نقاب اٹھاؤں
سمجھ بھی جا کہ پس پردۂ طرب کیا ہے


یہاں نہیں ہے یہ دستور گفتگو عرفانؔ
فغاں سنے نہ کوئی حرف زیر لب کیا ہے