وہ شاخ مہتاب کٹ چکی ہے

بہت دنوں سے
وہ شاخ‌ مہتاب کٹ چکی ہے
کہ جس پہ تم نے گرفت وعدہ کی ریشمی شال کے ستارے سجا دیئے تھے
بہت دنوں سے
وہ گرد احساس چھٹ چکی ہے
کہ جس کے ذروں پہ تم نے
پلکوں کی جھالروں کے تمام نیلم لٹا دیئے تھے
اور اب تو یوں ہے کہ جیسے
لب بستہ ہجرتوں کا ہر ایک لمحہ
طویل صدیوں کو اوڑھ کر سانس لے رہا ہے
اور اب تو یوں ہے کہ جیسے تم نے
پہاڑ راتوں کو
میری اندھی اجاڑ آنکھوں میں
ریزہ ریزہ بسا دیا ہے
کہ جیسے میں نے
فگار دل کا ہنر‌ اثاثہ
کہیں چھپا کر بھلا دیا ہے
اور اب تو یوں ہے کہ
اپنی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کر
مرے بدن پر سجے ہوئے آبلوں سے بہتا لہو نہ دیکھو
مجھے کبھی سرخ رو نہ دیکھو
نہ میری یادوں کے جلتے بجھتے نشاں کریدو
نہ میرے مقتل کی خاک دیکھو
اور اب تو یوں ہے کہ
اپنی آنکھوں کے خواب
اپنے دریدہ‌ دامن کے چاک دیکھو
کہ گرد احساس چھٹ چکی ہے
کہ شاخ‌ مہتاب کٹ چکی ہے