وہ روح بن کے مری فکر اور شعور میں ہے

وہ روح بن کے مری فکر اور شعور میں ہے
وہ ایک درد ہے جو قلب ناصبور میں ہے


یہ کائنات ہے حسن ازل کا عکس جمیل
شفق کے رنگ میں ہے وہ سحر کے نور میں ہے


وہ زہر غم کو بھی اک جام انگبیں سمجھا
وہ بادہ کش جو مئے عشق کے سرور میں ہے


اسی کا جلوہ ہے دیکھو تو دیدۂ دل سے
نظر سے چھپ کے بھی وہ عالم ظہور میں ہے


نیاز عشق کہاں شیخ کی عبادت میں
خیال یار میں ہم وہ خیال حور میں ہے