وہ رعب حسن تھا اس کا سلام بھول گیا

وہ رعب حسن تھا اس کا سلام بھول گیا
کرا سکا نہ تعارف میں نام بھول گیا


ادھر ادھر کی ہوئی خوب گفتگو اس سے
بہت ضروری تھا سب سے جو کام بھول گیا


غم جہاں نے کیا اس قدر خراب کہ میں
جو دوستوں میں گزاری تھی شام بھول گیا


زبان غیر سے میں تیرا تذکرہ سن کر
ذرا سی دیر میں سب احترام بھول گیا


رکھا جو اس نے محبت سے ہاتھ کاندھے پر
جو دل میں درد تھا میرے تمام بھول گیا


یہ کیسی راہ تمنا تھی میرے پیش نظر
چلا تو چل کے فقط چند گام بھول گیا


میں اس کی ذات میں گم اس طرح ہوا ناصرؔ
کہاں کے ہوش و خرد سب کلام بھول گیا