وہ رقص کرتی موسموں کی شوخیاں نہیں رہیں

وہ رقص کرتی موسموں کی شوخیاں نہیں رہیں
ہے شاخ گل وہی مگر وہ تتلیاں نہیں رہیں


فضا میں جانے نفرتوں کا کیسا زہر گھل گیا
محبتوں کی سبز سبز کیاریاں نہیں رہیں


وداع ہو کے بھی ہے آج لڑکیوں کو فکر یہ
قریب ان کی رازداں سہیلیاں نہیں رہیں


معاملہ عجیب سا یہ دوستوں میں ہو گیا
رقیب جب سے بن گئے تو یاریاں نہیں رہیں


ہمارے عہد میں کچھ ایسے مسئلے ہیں زیست کے
دلوں میں عشق کی نشاط کاریاں نہیں رہیں


خلوص و پیار آج بھی وہی ہے خاندان میں
بس اتنا ہے سخنؔ کہ جاں نثاریاں نہیں رہیں