وہ پہلے فکر کو حرف کمال دیتا ہے

وہ پہلے فکر کو حرف کمال دیتا ہے
پھر آگہی سے سخن کو اجال دیتا ہے


مجھی کو لوگ بہت سخت جاں سمجھتے ہیں
مجھی پہ ہر کوئی پتھر اچھال دیتا ہے


وہ عکس بن کے اترتا ہے جب بھی آنکھوں میں
تمام آئنے دل کے اجال دیتا ہے


محبتوں کا اسے میری اعتبار نہیں
مگر رقیبوں کو میری مثال دیتا ہے


کسی کو پھول سے لگتے ہیں عشق میں پتھر
کسی کو تیشہ بھی شوق وصال دیتا ہے


سخنؔ حیات میں کچھ ایسے موڑ آتے ہیں
ہر ایک لمحہ خوشی کا ملال دیتا ہے