وہ نشانہ بھی خطا جاتا تو بہتر ہوتا

وہ نشانہ بھی خطا جاتا تو بہتر ہوتا
آخری تیر نہ لگتا تو میں پتھر ہوتا


تشنگی اپنی صداؤں سی بھٹکتی ہوتی
ریت کا ڈھیر سرابوں کا سمندر ہوتا


پھر وہی قصہ وہ اک بار سناتا مجھ کو
پھر نگاہوں میں وہی خواب سا منظر ہوتا


میں نے ہی کاٹ دیں سب پھیلتی شاخیں ورنہ
اس گھنے پیڑ کا سایہ مرے سر پر ہوتا