وہ مشاعرہ کوئی اور ہے
تیرے فن کے پردے میں جلوہ گر کوئی اور تھا کوئی اور ہے
جو حسین شعر نہ کہہ سکے وہ مرے سوا کوئی اور ہے
مجھے ان دنوں یہی فکر ہے کہ کدھر نگاہ کرم کروں
مجھے چاہتا کوئی اور ہے مجھے مانگتا کوئی اور ہے
مجھے نوٹ جب ملا بیس کا تو سمجھ میں خود ہی یہ آ گیا
جہاں دو ہزار کی بات تھی وہ مشاعرہ کوئی اور ہے
تو خلوص دل سے یہ عہد کر کہ رہے گا ساتھ تو عمر بھر
نہ یہاں مرا کوئی اور ہے نہ یہاں ترا کوئی اور ہے
تو ہے تیرہ بچوں کی ماں تو کیا ابھی کچھ بڑھے گا یہ قافلہ
بخدا نشاط امید کا ابھی مرحلہ کوئی اور ہے