وہ مجھ پر اس طرح بھی مہرباں ہو

وہ مجھ پر اس طرح بھی مہرباں ہو
جہاں جاؤں وہ پہلے سے وہاں ہو


اشاروں میں کہا گونگے نے ہم سے
زباں ہوتے ہوئے بھی بے زباں ہو


یہ روحیں بھی بدن کے ساتھ جائیں
اگر زیر زمیں بھی آسماں ہو


ضروری ہے کہ خود چلتے رہو تم
ضروری یہ نہیں ہے کارواں ہو


عجب اسکول ہے یہ زندگی کا
جہاں استاد کا بھی امتحاں ہو


کبھی خود سے اکیلے بھی ملوں میں
ہمیشہ آئینہ کیوں درمیاں ہو


اسے قیدی نہیں آزاد سمجھو
جو زنجیریں پہن کر شادماں ہو