وہ مری دوست وہ ہمدرد وہ غم خوار آنکھیں

وہ مری دوست وہ ہمدرد وہ غم خوار آنکھیں
ایک معصوم محبت کی گنہ گار آنکھیں


شوخ و شاداب و حسیں سادہ و پرکار آنکھیں
مست و سرشار و جواں بے خود و ہشیار آنکھیں


ترچھی نظروں میں وہ الجھی ہوئی سورج کی کرن
اپنے دزدیدہ اشاروں میں گرفتار آنکھیں


جنبش ابرو و مژگاں کے خنک سائے میں
آتش افروز جنوں خیز شرر بار آنکھیں


کیفیت دل کی سناتی ہوئی ایک ایک نگاہ
بے زباں ہو کے بھی وہ مائل گفتار آنکھیں


موسم گل میں وہ اڑتے ہوئے بھونروں کی طرح
غنچۂ دل پہ وہ کرتی ہوئی یلغار آنکھیں


کبھی چھلکی ہوئی شربت کے کٹوروں کی طرح
اور کبھی زہر میں ڈوبی ہوئی تلوار آنکھیں


کبھی ٹھہری ہوئی یخ بستہ غموں کی جھیلیں
کبھی سہما ہوا سمٹا ہوا اک پیار آنکھیں


کبھی جھکتے ہوئے بادل کبھی گرتی بجلی
کبھی اٹھتی ہوئی آمادۂ پیکار آنکھیں


نوک ابرو میں کبھی تلخئ انکار لیے
کبھی گھولے ہوئے شیرینئ اقرار آنکھیں


آنچ میں اپنی جوانی کی سلگتی چتون
شبنم اشک میں دھوئی ہوئی گلنار آنکھیں


حسن کے چاند سے مکھڑے پہ چمکتے تارے
ہائے آنکھیں وہ حریف‌ لب و رخسار آنکھیں


عشوہ و غمزہ و انداز و ادا پر نازاں
اپنے پندار جوانی کی پرستار آنکھیں


روح کو روگ محبت کا لگا دیتی ہیں
صحت دل جو عطا کرتی ہیں بیمار آنکھیں


صحن زنداں میں ہے پھر رات کے تاروں کا ہجوم
شمع کی طرح فروزاں سر دیوار آنکھیں